ghalib

28.06.2017 Views

752 آگ من کی آگ ہے۔ اسی طرح ابرش آلودہ فرقت ک پرتوٹھہر جت ہے۔ کروچے ک نظری‏’’‏ اظہریت‘‘بھی تو یہی ہے اس کے نزدیک انسنی ذہین سے بہر کوئی چیز نہیں بک ذہن اپنے مقصد کے لئے بض اشیء کو خرجی طور پر متشکل کر لیت ہے)‏‏(‏ گوی انسنی ذہن نے جس چیز کو جواور جیس ن دے دی اس ک اظہر عین اصل کے مطب ہون چہیے ۔ غل کی زیر حوال تمثل ہی کولے لیں۔ فرقت کی حلت میں گستن پر آگ برسن ی فرقت کے لئے ابر ش آلودہ تمثل گھڑن ، غط اورال ینی نظرنہیں آت۔ فرقت کی حلت میں ابر خون آلودہ نظر آت ہے۔ فرقت آگ ہے۔ گستن میں موجودسرخ پھولوں کی چمک دمک آگ سی محسوس ہوگئی ۔ من میں آگ ہے تو خرج میں برکھ رت کیونکر دکھئی دے گی۔ فرقت کے سب ‏‘خرج آگ میں جال اور خون میں نہی محسوس ہوگ۔ غل کے ا س شر کے حوال سے بال تکیف اور بال تردد کہجسکت ہے ک مغر کے نیست سے مت نظریت کی آمد سے بہت پہے غل نے انسنی نیست کی بریک سے بریک گرہیں کھول دی ہیں۔ اسی حوال سے کہ ج سکت ہے ک کروچے ک نظری اظہریت کل پرسوں بر صغیر میں وارد ہوا ہے جبک غل بہت پہے ایسے نسیتی امور پر گتگو کر چکے ہیں۔ پتے نہیں ج راہ تو چڑھ جتے ہیں نلے *

753 رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور غل نے طبع کے رکنے کو ‏’’نلے‘‘ک روپ عط کی ہے۔ ج کسی ندی نلے میں کوئی رکوٹ آجتی ہے تو پنی جمع ہون شروع ہوت ہے۔ پنی کی ی بہتت اس کی روانی کو اور تیز کردیتی ہے اور پھر پنی ‏’’نلے کے کنروں کو پھندتہوا ادھرادھر سے گزرنے لگت ہے۔ انسنی نسیت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ ک اظہر چہت ہے۔ دکھ سکھ سینے میں سج رکھنے سے شخص عاللت کی گرفت میں آجت ہے۔ سینے میں طوفن مچ جت ہے۔ اظہر کی خواہش میں شدت آتی چی جتی ہے۔ غل نے اس نسیتی مسے کو تمثیی رنگ دے کر اس کی ضرورت اور اہمیت ک اجگر کرنے کی کوشش کی ہے ی بھی سننے میں آت ہے’’سینے میں دب رکھنے سے اس میں نکھرآجت ہے‘‘‏ )( ی نظری جن نہیں رکھت۔ شدت کی صورت میں بغی پن سے زیدہ کچھ نہیں آپئے گ ی پھر اس کی اصل میں تبدیی آتی چی جئے گی۔ ی بھی ممکن ہے صورت کچھ کی کچھ ہوجئے ۔ ی بھی ک ممے کے جم مدارج اپنے اصل کے مطب سمنے نہیں آپئیں گے۔ قص مختصر روانی میں کوئی رکوٹ نہیں آنی چہیے۔ برابر،‏ متواتر اور مسسل رہن اس کی ضرورت ہے۔ طبع کی روانی میں رکوٹ کو نلے کے بہؤ میں رکوٹ پیدا ہونے کے مترادف قرار دے کر غل نے بڑی شندار تمثیل وضع کی ہے۔ ‘‘

753<br />

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور<br />

غل نے طبع کے رکنے کو ‏’’نلے‘‘ک روپ عط کی ہے۔ ج<br />

کسی ندی نلے میں کوئی رکوٹ آجتی ہے تو پنی جمع ہون<br />

شروع ہوت ہے۔ پنی کی ی بہتت اس کی روانی کو اور تیز<br />

کردیتی ہے اور پھر پنی ‏’’نلے کے کنروں کو پھندتہوا<br />

ادھرادھر سے گزرنے لگت ہے۔ انسنی نسیت بھی کچھ اسی<br />

طرح کی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ ک اظہر چہت ہے۔ دکھ سکھ<br />

سینے میں سج رکھنے سے شخص عاللت کی گرفت میں آجت<br />

ہے۔ سینے میں طوفن مچ جت ہے۔ اظہر کی خواہش میں شدت<br />

آتی چی جتی ہے۔ غل نے اس نسیتی مسے کو تمثیی رنگ<br />

دے کر اس کی ضرورت اور اہمیت ک اجگر کرنے کی کوشش<br />

کی ہے ی بھی سننے میں آت ہے’’سینے میں دب رکھنے سے<br />

اس میں نکھرآجت ہے‘‘‏ )( ی نظری جن نہیں رکھت۔ شدت<br />

کی صورت میں بغی پن سے زیدہ کچھ نہیں آپئے گ ی پھر<br />

اس کی اصل میں تبدیی آتی چی جئے گی۔ ی بھی ممکن ہے<br />

صورت کچھ کی کچھ ہوجئے ۔ ی بھی ک ممے کے جم<br />

مدارج اپنے اصل کے مطب سمنے نہیں آپئیں گے۔ قص<br />

مختصر روانی میں کوئی رکوٹ نہیں آنی چہیے۔ برابر،‏ متواتر<br />

اور مسسل رہن اس کی ضرورت ہے۔ طبع کی روانی میں رکوٹ<br />

کو نلے کے بہؤ میں رکوٹ پیدا ہونے کے مترادف قرار دے<br />

کر غل نے بڑی شندار تمثیل وضع کی ہے۔<br />

‘‘

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!