ghalib

28.06.2017 Views

700 شعر ہو جس نے اس قدر اور اتنے جندار مرکبت اردو شعری ‏:کو دئیے ہوں۔ اس کثرت کی دو وجوہ سمجھ میں آتی ہیں الف۔ غل زندگی کے شعر تھے۔ زندگی اپنے تم تر حوالوں،‏ واسطوں اور ضرورتوں کے سب ہمیش مزید اور زیدہ سے زیدہ وستوں کی طل رہی ہے۔ ۔ فرسی ‏،عہد غل میں د توڑ رہی تھی۔ غل کو فرسی سے عش تھ۔وہ اردو خواں طبقے میں بلواسط سہی،‏ فرسی سے ت برقرار رکھنے کی دانست کوشش کر رہے تھے۔ شعری میں مرک سزی کی روایت،‏ آتے وقتوں میں نئے اور پرانے حوالوں کے ستھ پروان چڑھی۔ اس ضمن میں حلی ، اقبل ، ن راشد ، فیض ، نصر کظمی ، بیدل حیدری،‏ حید ر گردیزی،صبر آفقی،‏ اقبل سحر انبلوی،‏ ڈاکٹر محمد امین وغیرہ کو بطور مثل پیش کی ج سکت ہے۔ اس ب میں غزل ہی کی دیگر اضف شر ک بھی دامن بھرا پڑا ہے اور ی بت بڑی خوشگوار اور صحت مند صورتحل کے زمرے میں آتی ہے۔ غل زندگی کے مختف حوالوں،‏ واسطوں اور ضرورتوں ک فس ، ان کی مروج غیر مروج نیست کے ستھ نظ کر رہے تھے۔ وہ زندگی سے ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ انھوں نے

701 زندگی کو بطور شخص،‏ جسے مالئک فکی نے سجدہ کی‏،‏ کی آنکھ سے دیکھ اور اپنے اس دیکھنے کو شعر فطرت طراز کے ق سے رق کی۔ اس تنظر میں،‏ ان کے مرکبت میں کچھ ‏:اس قس کی خصوصیت نظر آتی ہیں ۔ اطراف کے الظ بمنی اور استمل میں آنے والے ہوتے ہیں‘‏ ن منوس نہیں ہوتے۔ ۔ مرک میں وارد ہو کر،‏ ع سے خص کے درجے پر فئز ہو جتے ہیں۔ ۔ ایک دوسرے کی توضیع،‏ تسیر اور تصریح کی وج بن جتے ہیں۔ ۔ ایک دوسرے کی وجء شہرت ٹھہرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے خصوص بننے ک صرف دونوں،‏ ن ۔ سب بنتے ہیں بک اپنے قری کی توج اور دلچسپی پر بھی گرفت کرتے ہیں۔ ۔ ایک دوسرے کو منوی اور صوری حسن فراہ کرتے ہیں۔ ۷ ۔ ایک دوسرے کو استملی توانئی اور شکتی مہی کرتے ہیں۔ قئ بلذات منسو مہی کی حیثیت اپنی جگ لیکن لچک لظوں

700<br />

شعر ہو جس نے اس قدر اور اتنے جندار مرکبت اردو شعری<br />

‏:کو دئیے ہوں۔ اس کثرت کی دو وجوہ سمجھ میں آتی ہیں<br />

الف۔ غل زندگی کے شعر تھے۔ زندگی اپنے تم تر حوالوں،‏<br />

واسطوں اور ضرورتوں کے سب ہمیش مزید اور<br />

زیدہ سے زیدہ وستوں کی طل رہی ہے۔<br />

۔ فرسی ‏،عہد غل میں د توڑ رہی تھی۔ غل کو فرسی<br />

سے عش تھ۔وہ اردو خواں طبقے میں بلواسط سہی،‏<br />

فرسی سے ت برقرار رکھنے کی دانست کوشش کر رہے<br />

تھے۔<br />

شعری میں مرک سزی کی روایت،‏ آتے وقتوں میں نئے اور<br />

پرانے حوالوں کے ستھ پروان چڑھی۔ اس ضمن میں حلی ،<br />

اقبل ، ن راشد ، فیض ، نصر کظمی ، بیدل حیدری،‏ حید ر<br />

گردیزی،صبر آفقی،‏ اقبل سحر انبلوی،‏ ڈاکٹر محمد امین وغیرہ<br />

کو بطور مثل پیش کی ج سکت ہے۔ اس ب میں غزل ہی کی<br />

دیگر اضف شر ک بھی دامن بھرا پڑا ہے اور ی بت بڑی<br />

خوشگوار اور صحت مند صورتحل کے زمرے میں آتی ہے۔<br />

غل زندگی کے مختف حوالوں،‏ واسطوں اور ضرورتوں ک<br />

فس ، ان کی مروج غیر مروج نیست کے ستھ نظ کر<br />

رہے تھے۔ وہ زندگی سے ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ انھوں نے

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!