ghalib

28.06.2017 Views

286 غل تراج کے اردو ک لسنی جئزہ محدود حوالوں سے جڑی مشرتیں سدہ،‏ پر سکون،‏ خوشگوار اور آسودہ حل ہوتی ہیں۔ ان کے سیسی مشی اور عمرانی مسئل ک ہوتے ہیں۔ ان سے منسک اکئیں بض ممالت میں ذاتی شنخت کو تیگنے پر تیر رہتی ہیں لیکن ایسی مشرتیں زیدہ دیر تک اپن وجود برقرار نہیں رکھ پتیں۔ مسئل ک ہونے کے بعث ان کے سوچ کے دائرے محدود رہ کرزنگ آلودہوجتے ہیں ۔ کسی وقت بھی کوئی دوسری مشرت ش خون مر کر انہیں ہئی جیک کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس بہت سرے حوالوں سے پیوست مشرتیں بے سکون نخوشگوار اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔ سیسی مشرتی اور عمرانی مسئل میں ہر لمح اضف ہی ہوت ہے۔ ی مسئل انہیں متحرک رکھتے ہیں۔ ان کے سوچ کے دائرے انہیں مخصوص کر وں تک محدود رہنے نہیں دیتے۔ ہر نئے خطرے اور ہر نئے مسے سے نبردآزم ہونے کے لیے انہیں ہر لمح متحرک رہن پڑت ہے۔ پیچیدگی ، بے سکونی اور بے چینی انہیں کسی دوسری مشرت کی غالمی ی زیر دستی سے بچئے رکھتی ہے۔ سوچ کے پھیتے حقے ایجدات و کمالت کے دروا کئے چے جتے ہیں۔ سوچ ک حق جتن وسیع ہو گ زندگی اتنی ہی متحرک اور فل ہو گی۔

287 سوچ کے کینوس کی وست کے لیے الز ہے ک ایک سمج دوسرے سمجوں سے قریبی اور گہرے رشتے استوار کرت چال جئے۔ تبدالت کے مم میں فراخدلی ک مظہرہ کرے ۔ محدود اور مخصوص پیمنوں کو توڑ دی جئے۔ حالت اور ضرورت کے مطب تبدییوں ک عمل جری رہن چہیے۔تہ ذاتی شنخت اور انرادیت کے پہو کو کسی بھی حوال سے نظر انداز نہیں ہون چہیے ورن کو ا چال ہنس کی چل اپنی بھی وہ بھول گی‏،‏ واال مم ہو گ۔ گوی لین دین میں توازن کو بڑی اہمیت حصل ہوتی ہے۔ سمجوں میں رشتوں کی استواری کے ضمن میں تراج ک ک کیدی حیثیت ک حمل ہوت ہے۔ ترجمے کی ضرورت و اہمیت صدیوں سے مس چی آتی ہے۔ مختف عالقوں ک اد ترجم ہو کر ادھر ادھر سر اختیر کرت رہت ہے۔ کوئی قو ع و اد پر مکیت ک دعویٰ‏ کر سکتی۔ ع و اد انسن کی مکیت ہے۔ دانش ک ہر حوال انسن کی اپروچ میں رہن ضروری ہے ۔ترجمے کے ذریے نظریت اعتقدات اور عبدات کے اطوار بھی دیگر امرج پر ٹرانسر ہوتے رہتے ہیں۔ وہں وہ تنقیدو تحقی کی چھنی سے گزرتے ہیں۔تنسیخ و تردید اور تبدییوں کے حوادث سے انہیں گزرن پڑت ہے۔ تراج زبنوں کو ن صرف وست عط کرتے ہیں بک ان کے اظہری حوالوں پر بھی مثبت اثرات مرت کرتے ہیں۔ تراج کے

287<br />

سوچ کے کینوس کی وست کے لیے الز ہے ک ایک سمج<br />

دوسرے سمجوں سے قریبی اور گہرے رشتے استوار کرت چال<br />

جئے۔ تبدالت کے مم میں فراخدلی ک مظہرہ کرے ۔ محدود<br />

اور مخصوص پیمنوں کو توڑ دی جئے۔ حالت اور ضرورت<br />

کے مطب تبدییوں ک عمل جری رہن چہیے۔تہ ذاتی شنخت<br />

اور انرادیت کے پہو کو کسی بھی حوال سے نظر انداز نہیں<br />

ہون چہیے ورن کو ا چال ہنس کی چل اپنی بھی وہ بھول گی‏،‏<br />

واال مم ہو گ۔ گوی لین دین میں توازن کو بڑی اہمیت حصل<br />

ہوتی ہے۔<br />

سمجوں میں رشتوں کی استواری کے ضمن میں تراج ک ک<br />

کیدی حیثیت ک حمل ہوت ہے۔ ترجمے کی ضرورت و اہمیت<br />

صدیوں سے مس چی آتی ہے۔ مختف عالقوں ک اد ترجم ہو<br />

کر ادھر ادھر سر اختیر کرت رہت ہے۔ کوئی قو ع و اد پر<br />

مکیت ک دعویٰ‏ کر سکتی۔ ع و اد انسن کی مکیت ہے۔<br />

دانش ک ہر حوال انسن کی اپروچ میں رہن ضروری ہے<br />

۔ترجمے کے ذریے نظریت اعتقدات اور عبدات کے اطوار<br />

بھی دیگر امرج پر ٹرانسر ہوتے رہتے ہیں۔ وہں وہ تنقیدو<br />

تحقی کی چھنی سے گزرتے ہیں۔تنسیخ و تردید اور تبدییوں<br />

کے حوادث سے انہیں گزرن پڑت ہے۔<br />

تراج زبنوں کو ن صرف وست عط کرتے ہیں بک ان کے<br />

اظہری حوالوں پر بھی مثبت اثرات مرت کرتے ہیں۔ تراج کے

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!