t (2 files merged) (1)
- No tags were found...
Create successful ePaper yourself
Turn your PDF publications into a flip-book with our unique Google optimized e-Paper software.
گیرہ منسنے<br />
مقصود حسنی<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
مرچ ٧
1<br />
صرف اور صرف<br />
لوکنہ<br />
مقصود حسنی<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
فروری ٧
2<br />
صرف اور صرف<br />
ایک خوشمدی نے بدشہ سے کہ: حضور آپ کی کی بت ہے۔<br />
آپ س نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگ۔ آپ کی بڑی لمبی<br />
عمر ہے اور آپ ت دیر سالمت رہیں گے۔ ج کوئی نہیں ہو گ<br />
ت بھی آپ کی بدشہت قئ ہو گی۔ دری کی منہ زور لہر یں بھی<br />
آپ کے حک کی تبع ہیں اور تبع رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حک<br />
کے بغیر حرکت میں نہیں آتیں۔<br />
خوش آمدی کے کہے نے بدشہ کی روح کو سکون دی اور دل<br />
تر وتزہ کر دی۔ اس نے بہت سی اشرفیں اس کی آغوش میں<br />
ڈال دیں۔<br />
بدشہ نے پس کھڑے گمشتے سے کہ۔ رمی کو بواؤ۔<br />
اس نے فورا سے پہے ایچی کو حک دی کہ رمی کو شہی<br />
دربر میں حضر کی جئے۔<br />
وہ تیر کی طرح اڑت ہوا رمی کو بالنے چال گی۔ دریں اثن بدشہ<br />
نے جی حضوریے سے کہ کہ ہمرا تخت فوری طور پر دری کے<br />
کنرے لگوای جئے۔ جی حضوریہ بدشہ کے حک کی تعمیل<br />
میں جٹ گی۔<br />
رمی آ گی۔ بدشہ نے کہ کہ ہمرے اس کرندے نے کہ ہے کہ
3<br />
ہ تدیر جیئں گے۔ ج کچھ بھی نہیں ہو گ اس وقت بھی ہمری<br />
بدشہت قئ ہو گی۔ بتؤ اس ک کہن کہں تک درست ہے۔<br />
رمی تھوڑی دیر تک حس کت لگت رہ۔ وہ جنت تھ کہ<br />
بدشہ سچ اور حق کی سننے کے عدی نہیں ہوتے۔ حق سچ کی<br />
کہنے والے ہمیشہ جن سے گیے ہیں۔ اگر اس نے بھی آج حق<br />
سچ کی کہی تو جن سے جئے گ۔ خوشمدی انع و اکرا لے<br />
کر گی ہے اور وہ اپنے قدموں واپس گھر نہ ج سکے گ۔ پھر<br />
اس نے جعی خوش خبری لبریز خوشی کے ستھ اس خبر کی<br />
تصدیق کر دی۔ یہ ہی نہیں اس نے پن ست جمے اپنے پس<br />
سے بھی جڑ دیئے۔<br />
رمی کی بتوں نے بدشہ کو خوش کر دی ہں البتہ خوش آمدی<br />
پر نراض ہوا کہ اس نے سری بتیں کیوں نہیں بتئیں۔<br />
اسی دوران حک شہی کی تعمیل میں بدشہ ک تخت دری کنرے<br />
آراستہ کر دی گی۔ بدشہ چیوں‘ چمٹوں‘ گمشتوں‘ خوش<br />
آمدیوں وغیرہ کے ستھ دری کنرے لگے تخت پر آ بیٹھ۔ سرد<br />
اور رومن خیز ہوا نے اسے بہت لطف دی۔ بدشہ نے محول<br />
اور فض کی تعریف کی اور آئندہ سے دری کنرے تخت آراستہ<br />
کرنے ک حک دی۔ کسی کو اصل حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔<br />
بدشہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھ کہ دری<br />
کی ایک منہ زور لہر آئی س کچھ بہ کر لے گئی۔ بدشہ کی
4<br />
ٹنگیں اوپر اور سر نیچے ہو گی۔ بدشہ ک تخت بہت ہوا جنے<br />
کہں چال گی اور وہ خود بہت ہوا اپنی سطنت کی حدوں بہت دور<br />
نکل گی۔ دیکھ وہں ویرانیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھ۔ کسے<br />
حک جری کرت کہ اسے اس کے قدموں پر کرے۔ ہں لا کے<br />
حک کی تعمیل میں موت ک فرشتہ اس کے سمنے کھڑا مسکرا<br />
رہ تھ اور چند لمحوں کی مہت دینے کے لیے بھی تیر نہ تھ۔<br />
رمی سین تھ ت ہی تو خبر کی تصدیق اور اپنے جھوٹ ک<br />
انع لے کر چپکے سے دربر سے کھسک گی تھ۔<br />
دری کی ایک لہر نے ثبت کر دی کچھ بقی رہنے کے لیے نہ یں<br />
ہے۔ بق صرف اور صرف لا ہی کی ذات کے لیے ہے۔
1<br />
وہ جنت تھ<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
فیجں کے تی ابو اسے منے کے لیے آئے۔ دیکھ بدرا گھر پر<br />
اکیال ہی بیٹھ ہوا تھ۔ ابتدائی سال دع کے بعد بیٹھ گئے۔<br />
بیٹھنے کے فورا بعد فیجں ک دریفت کی کہ کہں ہے۔ اس نے<br />
ذرا تخ لہجے میں کہ اسے دورہ پڑ گی تھ اور ٹیکہ لگوانے<br />
گئی ہے۔ یہ سن کر فورا اٹھ گئے اور چل دیے۔ اس کے روکنے<br />
کے بوجود نہ رکے۔<br />
انہوں نے گھر سے بہر آ کر اس کے بڑے بھئی جو گر اور<br />
تخ مزاج ک تھ کو فون کی اور بتی کہ اس کی بہن کو دورہ پڑ<br />
گی ہے اور وہ ہسپتل میں ہے اور تمہرا بہنوئی آرا سکون<br />
سے گھر بیٹھ ہوا ہے اور اسے بیوی کی رائی بھر چنت نہیں۔<br />
اس نے ک سے چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر آ کر مں پر<br />
خو گرج برس کہ اس کی پیری بہن ک کس الپرواہ سے رشتہ<br />
کر دی تھ۔ مں نے خوند کو بوای وہ بھی ک چھوڑ کر گھر آ<br />
گی۔
2<br />
اچھ خص شور مچ۔ پورے محہ میں یہ بت مشہور ہو گئی کہ<br />
فیجں کو دورہ پڑ گی ہے اور اس ک خوند بڑی الپرواہی سے<br />
گھر پر آرا کر رہ ہے۔ یہ بت از خود مشہور ہو گئی کہ فیجں<br />
کے خوند نے اسے کچھ کر دی ہے اور وہ ہسپتل میں آخری<br />
دموں پر ہے۔ ایک صح ہ دردی میں آ کر فیجں کے قتل کی<br />
سزش کی اطالع قریبی تھنے میں بھی کر آئے۔<br />
گھر ک سرا ال لشکر بدرے کے گھر آ پہنچ اور اس کی کچھ<br />
سنے بغیر ہی اس پر جوتوں سمیت چڑھ دوڑا۔ وہ ان کی لغویت<br />
بڑے تحمل سے سنت رہ۔ اس ک سال نہلہ تو بر بر اسے<br />
مرنے کے لیے اس کی طرف آت۔ وہ تو بھال ہو مموں ش ک<br />
جو اسے روک لیت۔ اس ک موقف یہ تھ کہ اگر کوئی سٹ پیٹ آ<br />
گئی تو کیس برابر ہو جئے گ اور بدرا کڑی سزا سے بچ جئے<br />
گ۔<br />
ابھی یہ رگڑا جھگڑا چل ہی رہ تھ کہ پولیس آ گئی انہوں نے آؤ<br />
دیکھ نہ تؤ بدرے کی خو ٹھکئی کر دی۔ ان سے ایک پولیس<br />
واال کہنے لگ:<br />
کنجر کہ یں ک۔ بیوی کو قتل کر رہ تھ۔<br />
لظ کنجر پر وہ بھڑک اٹھ اور کہنے لگ: میں کنجر نہ یں<br />
بےغیرت ہوں۔<br />
اس کی گرج دار آواز اور اس کے الظ سن کر س سکتے میں
3<br />
آ گئے کہ یہ کی کہہ رہ ہے۔ کسی نے یہ کھوجنے کی ضرورت<br />
ہی محسوس نہ کی تھی کہ وہ دورے ی شدید زخمی حلت میں<br />
ہسپتل اپنے پؤں پر کیسے چی گئی۔<br />
پولیس اسے پکڑ کر لے ج رہی تھی اور ابھی گھر کے دروازے<br />
سے بہر بھی نہ نکل پئی تھی کہ فیجں چنگی بھی گھر میں<br />
داخل ہوئی۔ اس پر خمر کی سی کییت طری تھی۔ وہں موجود<br />
لوگوں نے اس کی خمری کییت نوٹ کی۔ جوں اس نے گھر<br />
میں اتنے سرے لوگ اور پولیس دیکھی تو جنسی آسودگی کے<br />
خمر سے بہر آ گئی۔ فیجں کو ٹھیک ٹھک دیکھ کر س حیران<br />
رہ گئے۔ اس ک بڑا بھئی غصے سے بوال کہں گئی تھی۔ ادھر<br />
ہی تھی ادھر ہی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ پولیس نے اس کے بھئی<br />
کو پرے دھک دی اور فیجں سے پوچھنے لگے کہ بی بی ت<br />
کہں گئی تھیں۔ اس نے کوئی جوا نہ دی۔ دریں اثن فیجں ک<br />
بپ پولیس والے کی طرف بڑھ اور اس کی مٹھی میں کچھ لگ<br />
دی۔ پولیس والے خموشی سے گھر سے بہر نکل گئے۔<br />
سین آدمی تھ پولیس کے چے جنے کے بعد بوال۔ ہمیں اطالع<br />
کی تصدی کر لینی چہیے تھی اور ہ دوڑے آئے۔ ان کے گھر<br />
ک مسہ تھ۔ میں بیوی میں جھگڑا ہو ہی جت ہے یہ کون سی<br />
بڑی بت ہے۔
4<br />
فیجں ک خوند منہ کھولنے کو ہی تھ کہ اسے خیل گزرا کہ وہ<br />
تو بیمر شمر رہت ہے اس ک کی پت ہے۔ غطی پر تو فیجں ہے<br />
اور وہ اپنی عزت ک خیل نہیں کر رہی۔ اگر اس نے بھری مجس<br />
میں فیجں کی کرتوتوں کو نشر کر دی تو اس ک اکوت بیٹ جو<br />
ہسٹل میں داخل تھ مرتے د تک یہ طعنہ سنت رہے گ کہ اس<br />
کہ مں ایک فحشہ عورت ہے۔ یہ طعنہ سن کر وہ کس طرح<br />
پرسکون زندگی گزار سکے گ۔ چو کوئی بت نہیں وہ عورت کی<br />
کمئی تو نہیں کھ رہ۔ اپنی کرنی خود بھگتے گی۔ وہ دال نہیں<br />
بےغیرت ہے اور اسے اس بےغیرتی کی آگ میں چند اور<br />
سنسوں جن پڑے گ۔ اگر ستھ بھیج دیت تو چند معزز بیچ میں<br />
پڑ کر صح صئی کرا دیتے ی عرصہ دراز تک کچہری کی خک<br />
چھنن پڑتی۔ ہوت کی‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ خو جنت تھ کہ اس<br />
اندھر نگری میں کچھ بھی نہ ہو سکے گ۔ یہں ح سچ آنچ میں<br />
جت ہے اور دغ فری کو کوئی آنچ نہیں۔<br />
…………..<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
فروری ٧
1<br />
ثمر ین آنٹی<br />
منسنہ<br />
مقصود حسن ی<br />
مں کی محبت کے برے میں کچھ کہن سورج کو چند دکھنے<br />
والی بت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محتج نہیں ہوتی۔ مں<br />
بچوں کے لیے جو مشقت اٹھتی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت۔<br />
اس کی سنسیں اپنے بچے کے ستھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔<br />
وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس<br />
ک ہر کی بال ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ مں بچے کے لیے اپنی<br />
جن سے بھی گزر جتی ہے۔ یہ محبت اور شقت اس کی ممت
یآت<br />
یکئ<br />
2<br />
کی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی<br />
ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خص اور الزمہ ہے ۔<br />
عورت اپنے پچھوں کے معمہ میں اوالد سے بھی زیدہ<br />
حسس ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ مں<br />
بپ نے دوبرہ آن ہے اور نہ بہن اور بھئی پیدا ہو سکتے ہیں۔<br />
اس ک دو نمبر بھئی بھی قط نم اور بپ کو نبی قری<br />
سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خمی ی خرابی اس کو نظر نہیں<br />
ی ان سے کمی کوتہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خوند<br />
کی مں عموم فے کٹن اور بپ لوبھی اور اللچی ہوت ہے۔ بہن<br />
بھئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہ یں۔<br />
کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار<br />
رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی الن چہتی تھی ج کہ<br />
اس ک خوند ادھر رشتہ نہیں کرن چہت تھ۔ لڑکی میں کوئی کجی ی<br />
خمی نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ نہیں کرن چہت تھ۔ ان کے گھر میں<br />
مہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا چل رہ تھ۔ جوں ہی گھر میں وہ<br />
قد رکھت کل کین شروع ہو جتی اور یہ اگے دن اس کے ک<br />
پر جنے تک تھوڑے تھوڑے وقے کے ستھ چتی رہت ی۔<br />
ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے معمہ شیئر کی،<br />
وہ ہنس پڑا
یگئ<br />
3<br />
او یر اس میں پریشنی والی کی بت ہے۔ بھبی کو اپنی ڈال دو<br />
س ٹھیک ہو جئے گ ۔<br />
کی ڈالوں ۔ اپنی<br />
یہ ہی کہ ت درسری شدی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند<br />
کر لی ہے۔ اس نے کہ<br />
یر میں پگل ہوں جو ایک بر شدگی کے بعد کوئی عورت پسند<br />
کروں گ ۔<br />
تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حمقت کرو‘ جعی کردار تخی<br />
کرو ۔<br />
اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آی۔ طے یہ پی کہ وہ ٹیی فون<br />
پر مس کل کرے گ۔ اس کے بعد وہ جعی عورت سے دیر تک<br />
رومن پرور بتیں کرت رہے گ۔ پہے ہتے زبنی کالمی اگے<br />
ہتے سے ٹیی فونک سسہ چے گ ۔<br />
اس دن ج رشتے کی بت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت<br />
کی کہنی چھیڑ دی۔ پہے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی۔ اس ک<br />
خیل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بتی کہ وہ بڑے<br />
بند مرتبہ شخص کی سلی ہے۔ اسے طال ہو ہے۔ بڑی ہی<br />
خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیں ہ یں۔
یکئ<br />
یرہ<br />
یگئ<br />
4<br />
کر بی بی کچھ دن اسے الف زنی خیل کرتی ۔ اگے ہتے<br />
ٹیی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک جعی عورت سے جعی<br />
رومن پرور بتیں کرت۔ بر بتوں کے درمین کہیں سے<br />
ٹیی فون بھی آی۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور<br />
ہی نہ کی کہ ٹیی فون کرنے کے دوران ٹیی فون کیسے آ سکت<br />
ہے ۔<br />
کر بی بی بھنجی ک رشتہ النے ک مسہ بھول سی اسے<br />
اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ الح ہو گی۔<br />
گھر میں اکیی دھندنتی تھی سوت کے آ جنے کے دکھ نے<br />
اسے ادھ موا کر دی۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے<br />
سوت کے آنے سے پہے کر لی گی مبدہ سوت کے آنے کے بعد<br />
کی حالت ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ بت نقش ہو گئی کہ<br />
سوت کے آنے کے بعد حالت برعکس ہو جئیں گے ۔<br />
لڑکے کی شدی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی<br />
محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ۔ بت بت پر برہ ہوت<br />
اور کبھی رونے لگت۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے<br />
اچنک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س بر<br />
بر پوچھتے کہ آپ اتنے پریشن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی
یرہ<br />
یول<br />
5<br />
سے یہ ہی کہت ک پریشن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس<br />
ہونے لگ ۔<br />
آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی الئی۔ کہنے لگی تمہری<br />
ثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ محمد نے حیرت سے پوچھ<br />
تمہیں کیسے پت چال۔ کوئی ٹیی فون تو نہیں ای ۔<br />
کر بی بی کی بچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت<br />
سے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں<br />
جو تمہرے ستھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی بال تھکن بولتی<br />
وہ موٹے موٹے آنسوبہت گی۔ اس کی یہ کئی مہ اور<br />
خصوص اس روز کی اداکری دلیپ کمر بھی دیکھ لیت تو عش<br />
عش کر اٹھت ۔<br />
اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پال پڑا۔ سلی کی<br />
بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے عرضی سہی<br />
قیمت سے گزرن پڑا۔ جعی ثمرین کی جعی محبت ک ڈرامہ<br />
زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مسہ حل ہو گی۔<br />
جعی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے ستھ<br />
موجود ہے ۔<br />
آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چنے پھرنے سے بھی قصر<br />
وعجز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے ستھ محبت ک طعنہ<br />
مت ہے۔ یہ طعنہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے چھوڑ
یچ<br />
یرہ<br />
6<br />
جنے ک طعنہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ ہے اگر ت<br />
سؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں جتی۔ یہ میں ہی ہوں<br />
جو ت ایسے بندے کے ستھ گزرا کرتی آ رہی ہوں کوئی<br />
اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچی جتی۔ خندانی ہوں اور میں<br />
اپنے مئی بپ کی الج نبھ رہی ہوں ۔
1<br />
جیسے کو تیس<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
اکر بڑے حوصے واال تھ۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیت غصہ<br />
نہ کرت بس تھوڑا س سنجیدہ ہو جت۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی<br />
لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر بعد نرمل ہو جت۔ کی بت ہے‘<br />
پہڑ جگرے ک ملک تھ۔ شید یہ اسے وراثت میں مال تھ۔ اس<br />
ک بپ بھی کمل برداشت اور صبر ک ملک تھ۔<br />
زبن میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زبن<br />
قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس کی اس خمی کے سب لوگ اسے اکو<br />
طوے طوے کہہ کر پکرتے۔ ذرا غصہ نہ کرت۔ یوں ظہر ہوت<br />
جیسے اس ک ن ہی اکو طوے طوے رہ ہو۔<br />
ایک دن پت نہیں اسے کی سوجھی کہ عمرے‘ جو ہ س میں چنچل<br />
اور دھئی ک شغی تھ‘ سے کہنے لگ: میری طرح بتیں کرکے دکھ<br />
دو میں س کو قدے حوائی کی مٹھئی کھالؤں گ۔ عمرے نے دو تین<br />
بر منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح بتیں کرنے لگ۔ ایس لگت تھ<br />
کہ جیسے اس نے حد سے زیدہ اس طور سے بتیں کرنے کی مشق<br />
کی ہو۔ س حیران رہ گئے اور ایک دوسرے ک منہ دیکھنے لگے۔ اکو
2<br />
طوے طوے کو مٹھئی پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھئی<br />
کھالئی بھی۔<br />
ا ج بھی وہ ہمرے درمین بیٹھت ایک دو بتیں اکو کے طور پر<br />
ضرور کرت۔ سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگئی تھی۔ شید<br />
اسے امید ہی نہ تھی کہ وہ اس طور سے بت کر سکے گ۔<br />
اس بت کو کئی مہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح ضرور<br />
بت کرت اور یہ اس کی عدت سی بن گئی۔ ایک روز سکندر نے<br />
شرارت سے اسے عمرو توتال کہہ کر پکرا تو وہ بھڑک اٹھ اور اس<br />
پر بڑا گر ہوا۔ ا کہ اکو خو ہنس۔ اس ک چڑن بڑا ہی پرلطف تھ۔<br />
اس کے بعد ج بھی ہ میں سے کوئی شغل کے موڈ میں ہوت تو<br />
اسے عمرو توتال کہہ دیت۔ وہ فورا سے پہے آپے سے بہر ہو جت۔<br />
گؤں کے لوگوں کو ج اس کی چیڑ ک پت چال تو وہ اسے عمرو توتال<br />
کہہ کر پکرنے لگے اور اس کی بدحواسی سے خو لطف اندوز<br />
ہوتے۔ پھر کی تھ عمرو توتال اس ک ن پڑ گی۔ ج وہ چڑت تو اکو<br />
کہت اسے کہتے ہیں جیسے کو تیس۔ جو بیجو گے وہ ہی کٹو گے۔<br />
آج دونوں کو دنی چھوڑے کئی سل بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو اکو<br />
طوے طوے کہہ کر بہت ک ید کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو ہی کہتے<br />
ہیں ج کہ عمرو کو عمرو توتال کہہ کر ید کرتے ہیں حالں کہ وہ<br />
سرے سے توتال نہ تھ۔ گوی مرنے کے بعد بھی جیسے کو تیس لحد<br />
میں نہیں اتر سک۔<br />
ابوزر برقی کت خنہ فروری ٧
1<br />
سنیئر سیٹی زنز<br />
لوکنہ<br />
مقصود حسن ی
2<br />
سنیئر سیٹی زنز<br />
لوکنہ<br />
لڑکی والوں نے کہ کہ برات کے ستھ کوئی بوڑھ نہیں آن<br />
چہیے۔ بڑی عج اور بےتکی ڈیمنڈ تھی۔ ایک طرح سے یہ<br />
بزرگوں کو مسترد کر دینے کے مترادف تھ۔ آخر بڑے بزرگوں<br />
کو کس طرح نظرانداز کی جئے۔ گھر کے س لوگ مل کر بیٹھ<br />
گیے اور سوچنے لگے کہ یہ کیوں کہ گی ہے اور اس ک کی حل<br />
نکال جئے۔ ہر کسی نے یہ ہی مشورہ دی جئے کہ رشتہ ہی<br />
چھوڑ دی جئے لیکن گمے کے اب ک موقف تھ کہ ہ اپنی منگ<br />
کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔ آخر طے یہ پی کہ بڑے اب جو<br />
بیمر تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے سے مشورہ لی جئے ۔<br />
بڑے اب اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ دو تین لوگ ان کے<br />
پس گئے اور سرا مجرا انہیں کہہ سنی گی۔ انہوں نے کچھ دیر<br />
کے لیے سوچ پھر کہنے لگے کہ ڈیمنڈ من لو اور مجھے<br />
کسی نکسی طرح چھپ کر ستھ لے جؤ۔ س نے کہ چو تھیک<br />
ہے ۔<br />
ان کے کہے پر س نے آمین کہ اور پھر جنج تیر ہونے لگی۔<br />
بڑے اب کو ایک صندوق میں چھپ لی گی اور ہنسی خوشی
3<br />
واجے واجتے ہوئے دلہن کے گھر کی راہ لی گئی۔ بڑے اب کو<br />
صندوق ہی میں ہر چیز مہی کر دی گئی۔ جنج میں شمل چند ایک<br />
کے سوا کوئی نہیں جنت تھ کہ بڑے اب ستھ کر لیے گئے ہیں<br />
کیوں کہ بت نکل سکتی تھ ی۔<br />
نکح وغیرہ کی رس سے فرغ ہوئے اور روٹی کھنے سے<br />
پہے کڑی والوں نے کہ ہر جنجی کے لیے ایک دیگ ک اہتم<br />
کی گی ہے اور وہ اسے کھن ہی ہو گی اگر نہ کھئی تو کڑی<br />
نہیں ٹوریں گے۔ یہ سنن تھ کہ س کو ہتھڑے پڑ گئے۔ ایک<br />
شخص کے لیے ایک دیگ ک کھن ممکن ہی نہ تھ۔ بت بڑے اب<br />
تک الئی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے سوچ پھر کہنے لگے<br />
ٹھیک ہے منظور کر لو اور کہہ دو کہ ایک وقت میں ایک دیگ<br />
پک کر کھن دسترخوان پر پروسیں۔ اس طرح ایک ایک دیگ<br />
پکتے جئ یں۔<br />
کڑی والوں سے کہ گی کہ ٹھیک ہے ہر جنجی ایک ہی دیگ<br />
کھئے گ تہ ایک وقت میں ایک پکئی اور پروسی جئے۔ کڑی<br />
والوں نے ان کی بت من لی اور ک شروع ہو گی۔ وہ ایک ایک<br />
دیگ پکتے گئے یہ کھتے گیے۔ اس عمل سے کڑی والوں کی<br />
شرط پوری کر دی گئی۔ ہر جنجی بآسنی ایک دیگ کھ گی ۔
4<br />
س حیرت میں ڈو گئے کہ یہ کی ہو گی ہے۔ کڑی ک بڑا بھئی<br />
کہنے لگ ت لوگ ضرور اپنے ستھ کوئی بب الئے ہو ورنہ<br />
ہمری شرط پوری ہو ہی نہیں سکتی تھ ی۔<br />
اس بت نے ثبت کر دی کہ ببے چوں کہ تجربہ کر ہوتے ہیں<br />
اس لیے اوکڑ ک حل نکل ہی لیتے ہیں۔ اس روز سے ہر دو<br />
عالقوں میں ببوں کی قدر کی جنے لگ ی۔<br />
کش سرے عالقوں میں سنیئر سیٹیزنز کو خصوصی نظر سے<br />
دیکھ جئے۔ بڑھپے کے سب وہ اس ک حق بھی رکھتے ہ یں۔<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
٧ فروری
نہ جئے مندن نہ پئے رفتن<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
کسی کے ممے میں یوں ہی ٹنگ اڑان بال ط مشورہ دین ی<br />
ذاتی ممالت میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہں کسی<br />
برائی سے روکن مجھے کبھی برا نہیں لگ۔ کوئی غصہ کرت ہے<br />
تو کرت رہے‘ میں نےکبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھئی کے<br />
زمرے میں‘ میں کسی کمپرومئز ک قئل نہیں۔ برائی کو ہر حل<br />
میں برائی ہی کہ جن چہیے۔ برائی کی تئید ی خموشی بہت<br />
بڑے سمجی نقصن ک موج ہو سکتی ہے۔<br />
1
میں کسی کے کی اپنی اوالد کے ذاتی گھریو ممالت میں دخل<br />
اندازی ک قئل نہیں۔ ہں البتہ مشورہ ط کرنے کی صورت میں<br />
بڑی دینت داری سے دو ٹوک اور بال لگی لپٹی اپنی رائے ک<br />
اظہر کر دیت ہوں۔ یہ پہال موقع تھ کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اور<br />
جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لی کہ وہ گھر میں صرف دو<br />
لوگ رہتے ہیں تو پھر اتن گوشت کیوں لے کر جتے ہو۔ مہمن<br />
بھی کوئی خص آتے جتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل<br />
کھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگ۔ میری بیگ صرف گوشت کھن<br />
پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مختف نوعیت کی ڈیشیں بننے میں<br />
مہرت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت<br />
پسند نہیں کرت۔ لیگ پیس تو اس کی من بھتی کھ ج ہے۔ رات<br />
کو آخر سون بھی ہوت ہے۔<br />
ابے لیگ پیس اور رات کو سون بھی ہوت ہے کوئی میل کھتی<br />
بت نہیں۔ بلکل بےسری سی کہہ گئے ہو<br />
جن بےسری نہیں حقیقت اور میل کھتی ہوئی بت کی ہے۔<br />
وہ کیسے‘ میں سجھ نہیں<br />
جن مر کی ٹنگیں نہیں ال کر دوں گ تو ہو سکت ہے کہ رات<br />
کو اس ک موڈ بن جئے اور اٹھ کر میری ایک ی زیدہ ضرورت<br />
کی صورت میں دونوں ہڑپ جئے اور مجھے صبح اٹھ کر پت<br />
چے۔ ایک ٹنگوں سے جؤں اوپر سے یہ من سنوں‘ ت جی<br />
2
کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بت ہے کہ میری کوئی جی ہی نہیں<br />
جی تو اسی کی ہے۔<br />
میں اس کی بت پر ہنس بھی اور مجھے اس کی کمل کی مبلغہ<br />
آرائی نے لطف بھی دی،<br />
اس نے بتی کہ اس کی زوجہ سرکر نے فقط چر شو پلے<br />
ہیں۔ کھن‘ لڑن‘ سون اور چوتھ ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چروں میں<br />
سے کسی ایک پر کمپرومئز نہیں ہو سکت۔ لڑائی میں<br />
چردیواری میں مقل آواز کی قئل نہیں۔<br />
اس کی آواز صور اسرافیل سے ممثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و<br />
دیوار پر لرزہ طری ہوجت ہے۔ لظوں کے پھوٹتے انگرے<br />
میرے وجود اور روح کو چھنی کر رہے ہوتے ہیں ج کہ محہ<br />
لظوں کی ادائیگی اسو اور نشت و برخواست سے لظف اندوز<br />
ہو رہ ہوت ہے۔ وہ ان لمحت میں غط اور صحیح کو ایک آنکھ<br />
سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نکتے زہر آلود لظ‘<br />
لظ ک حویہ کے دہکتے انگرے زیدہ ہوتے ہیں جو ان اور<br />
ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان<br />
خوف نک لمحوں میں کنوں میں شئیں شئیں ہوتی ہے اور<br />
آنکھوں میں اندھیرا چھ رہ ہوت ہے۔ اپنی خیر منتے کوئی بچ<br />
بچ کے لیے راہ میں نہیں آت۔<br />
3
دسمبر کی قی بن دینے والی سردی میں پنکھ فل اسپیڈ پر چال<br />
کر استراحت فرمتی ہے۔ سوچت ہوں جہن میں گئی تو جہن کی<br />
آگ ک اس پر کی اثر انداز ہو سکے گی ہں البتہ اس میں تیزی<br />
ضرور آ جئے گی۔ بےچرے جہنمیوں پر مزید قیمت توڑے گی۔<br />
ایک مرتبہ غطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجئے نیچے<br />
پھینک بیٹھ۔ یہ ننگے پؤں تھی اس ک پؤں سگریٹ پر آ گی۔<br />
یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی ہو۔ میرے ستھ جو ہوا<br />
اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکشف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو<br />
بھی جالتی ہے اور ک زور آگ ازیت ک شکر ہوتی ہے۔<br />
پھر خیل گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہں<br />
ک محول حبسی ہو جئے گ۔ اس بت کو چھوڑیے میرا کی بنے<br />
گ۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر<br />
چھوٹی موٹی غطی پر یغر ک کشن جری کرتی رہے گی۔<br />
میں اٹھن چہت تھ کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان<br />
کی را کہنی خت ہونے ک ن نہیں لے رہی تھی۔ میری کییت نہ<br />
جئے مندن نہ پئے رفتن کی سی تھی۔ اٹھت ہوں تو بد اخالقی<br />
بیٹھ رہت ہوں تو دم میں سوراخ ہو رہے تھے۔ پہے تو میں<br />
مداخت کو غیراخالقی ک سمجھت تھ لیکن ا مو ہوا کہ<br />
مداخت وقت اور دم کے زیں سے زیدہ چیز نہیں۔ میں نے<br />
4
دل ہی دل میں توبہ کی کہ اس کے بد ایسی غطی نہیں کروں<br />
گ۔ دو حرفی بت کو انہوں نے شیطن کی آنت بن دی۔<br />
نہ جئے مندن نہ پئے رفتن<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
فروری ٧<br />
5
1<br />
بےکر کی شر سر ی<br />
منسنہ<br />
مقصود حسن ی
2<br />
بےکر کی شر سر ی<br />
منسنہ<br />
یہ ہی کوئی پچیس تیس سل پہے کی بت ہے۔ یہں لا بخشے<br />
مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع<br />
تھے۔ کھنے پینے کے معمہ میں بڑے سدہ اور فراخ مزاج<br />
واقع ہوئے تھے۔ پہے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے بعد<br />
بھی جو مت بس لا کرکے ہڑپ جتے۔ اس ذیل میں انکر ن<br />
کی چیز سے بھی نآشن تھے۔ اوالد بھی لا نے انہیں کفی سے<br />
زیدہ دے رکھی تھ ی۔<br />
ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی<br />
نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی صح کی لہہ پہ کے لیے موقع<br />
تالشتی رہتی تھی۔ بعض اوقت بالموقع بھی بہت کچھ منہ سے<br />
نکل جتی تھی۔ انسن تھے چھوٹی موٹی غطی ہو ہی جتی بس<br />
پھر وہ شروع ہو جتی۔ س جنتے تھے کہ حد درجہ کی بوالر<br />
ہے۔ ہں اس کے بوالرے سے مولوی صح کے بہت سے<br />
پوشیدہ راز ضرور کھل جتے۔ مولوی صح نے کبھی اسے<br />
ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تالش نہ کی تھی۔ ہں البتہ خود<br />
بچؤ کی حلت میں ضرور رہتے تھے ۔<br />
انسن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے
ین<br />
3<br />
ذلیل کرنے کی ٹھن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے<br />
مہمن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے کفی برتن<br />
پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور ستھ میں مولوینہ<br />
انداز میں آواز لگئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے جؤ۔<br />
ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی<br />
کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے<br />
زبردستی انہیں وہں سے اٹھ دی۔ مولوی نے اس کے ہرے<br />
ہرے سے طور کو خو انجوائے کی ۔<br />
کچھ ہی دنوں بعد ایک اور ایس واقعہ پیش آی۔ اندر پن ست<br />
عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ<br />
گئے اور آواز لگئی کوئی اور دھونے واال کپڑا پڑا ہو تو دے<br />
جؤ مجھے کہیں جن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن۔<br />
مولوی پر پہے کی کیفیت طری ہو گئی اور اس نے انہیں<br />
کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو ۔<br />
مولوی صح ک خیل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو<br />
جئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن معمہ الٹ<br />
ہو گی۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی صح کے پہے<br />
کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھے لگ گی ہے۔ پگل تھیں کہ اگر<br />
مولوی صح کے پے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو<br />
گئے۔ رشتہ داروں میں جتے ی گی سے گزرتے تو عورتیں<br />
انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین دالتے کہ وہ
4<br />
ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے ستھ ہونی ک بدال اترنے<br />
کے لیے کی تھ ۔<br />
اتنے خوش طبع مولوی صح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح<br />
لوگوں کے ہں سے کھنے پینے کے مواقع بھی بےکر کی شر<br />
سری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کہن<br />
شروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ<br />
اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھئی ہے ۔<br />
………………………..
1<br />
آسودہ وہ ہی ہیں<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی
2<br />
آسودہ وہ ہی ہیں<br />
چھؤں ہو تو آدمی دھوپ کی خواہش کرت ہے۔ دھوپ ہو تو<br />
چھؤں کی تمن جگتی ہے۔ فراغت میں مصروفیت ج کہ<br />
مصروفیت میں فراغت چہت ہے۔ گوی انسن کی فطرت تبدییوں<br />
سے عبرت ہے۔<br />
میں کل اپنی بیٹی سے منے ج رہ تھ۔ رستے میں کئی گؤں<br />
آتے ہیں۔ کچے مکن جن کی لپئی بھوسے می مٹی سے کی<br />
گئی تھی۔ گؤں کے گرد و نواح میں ہرے بھرے کھیت تھے۔<br />
گھنی چھؤں والے درختوں کی موج بہر اور فطری حسن ق و<br />
روح میں سکون اور آسودگی بھر رہے تھے خواہش جگی کہ<br />
میرے پس بھی ایک ایس کچ اور لپئی کی مکن ہون چہیے۔<br />
پنی نک چال کر حصل کروں اور مٹی کی ہنڈی میں سلن پکے<br />
جو کسی پیڑ جو ہرے بھرے کھیت میں ہو کی چھؤں میں بیٹھ<br />
کر وہ کھن کھؤں۔ صف ظہر ہے گؤں کے کچے اور لپئی<br />
کیے مکن میں رہنے والے شہر میں علی شن مکن میں رہنے<br />
کی خواہش کرتے ہوں گے۔<br />
میں جس محے میں رہت تھ وہں گری اور درمینے طبقے<br />
کے لوگ رہتے تھے۔ وہں ہر سل روہی نلہ قیمت توڑت۔ اس<br />
کے بوجود لوگ وہں سے نقل مکنی نہ کرتے۔ ج بہتری آتی
3<br />
دوبرہ سے رہئش اختیر کر لیتے۔ دوچر مکن کچے تھے جو<br />
بہہ جتے رحمت مچھی ک مکن کچ اور روہی کنرے تھ۔<br />
رحمت مچھی صبح ش گھروں میں اپنی مشک سے پنی<br />
سپالئی کرت تھ۔ اس کے بعد لکڑیں وغیرہ الت اور اس کی<br />
بیوی تنور ک سسہ چالتی۔ ش پہٹھ پر روٹیآں لگتی اور<br />
رحمت پہٹھ میں آگ داخل کرت۔ نقدی کی بجئے آٹ ہی بطور<br />
عوضنہ جسے بھڑہ - پہڑہ کہ جت حصل کرتی۔ عورتیں<br />
روٹیں لگنے آی کرتی تھیں۔ پیڑے بن کر دیتی جتیں ج کہ<br />
رحمت کی بیو ی تنور میں روٹیآں بن کر لگتی تھی۔ پہٹھ پر وہ<br />
خود بی لگ لیت ں۔ روٹیوں کے پکنے ک ک بھی ہوت رہت ستھ<br />
میں بتیں بھی کرتی جتیں۔<br />
کڑی مشقت کے بعد ان ک کچھ دال دلیہ ہو پت۔ وہ پیٹ بھر<br />
کھنے کی کمن رکھتے تھے۔ کی کی جئے‘ آسودگی اور خوش<br />
حلی ہمیشہ سے گریبوں کی بیرن رہی ہے۔ وہ پہوں میں تھے<br />
جو روہی نلے کی زد میں آتے تھے۔ ج یہ بال ٹتی تو دوبرہ<br />
سے کئی کنوں ک جھونپڑا تعمیر کر لیتے۔<br />
اس بر تو دوہئی ہو گئی۔ افراتفری مچ گئی۔ لوگ سمن اٹھئے<br />
بند مق کی طرف بڑھ رہے تھے۔ شدید پریشنی ک عل تھ۔<br />
درمینے ی ان سے قدرے بہتر لوگوں پر یہ دن قیمت کے تھے۔<br />
رحمت بچوں کو ستھ لیے ایک پوٹی سی بندھے اور مشک
4<br />
کندھے پر لٹکئے دوسروں کے ستھ چے ج رہ تھ۔ ستھ میں<br />
بآواز بند کہے ج رہ تھ:<br />
بل اوے گریبیے اج ک آئی ایں <br />
س سمن کے حوالہ سے پریشن ہوتے وہ موج مستی اور<br />
بےفکری میں ہوت۔ گوی کسی کے لیے سمن وبل اور کسی<br />
کے لیے بےسروسمنی بے فکری ک بعث ٹھہرتی۔ سرا سل<br />
وہ گربت ک رون روت اور لوگ موج مستی کی گزارتے۔ بڑ کے<br />
دنوں لوگ اپنے سز وسمن کے لیے روتے اور پریشن ہوتے<br />
وہ بےسمن ہونے کے بعث بےفکری کے دن گزارت ۔<br />
بے شک آسودہ وہ ہی ہیں جو زندگی ک ہر موس قنعت اور<br />
صبروشکر سے ہیں۔<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
واہ ری گربت آج ک آئی ہو<br />
ابوزر برقی کت خنہ مرچ ٧
حالل کی بوٹی<br />
لوکنہ
حالل کی بوٹی<br />
لوکنہ<br />
مقصود حسنی<br />
ایک بب جی کی سرکر میں بہت سے لوگ حضر تھے۔ بب جی<br />
انہیں اچھئی اور خیر ک درس دے رہے تھے۔ پھر اچنک ان کی<br />
آواز بند ہو گئی۔ وہ فرم رہے تھے محنت اور مشقت کی کھؤ۔<br />
تمہرا جس خیر و برکت سے لبریز ہو جئے گ۔ حرا اور<br />
دوسرے کی کمئی ک چرای ی ہتھیی ایک لقمہ تمہیں شیطن کی<br />
بستی میں لے جئے گ۔ وہ دیر تک رزق حالل اور رزق حرا<br />
کے فرق کو واضح کرتے رہے پھر اچنک خموش ہو گئے اور<br />
پھر دیر تک خموش رہے۔<br />
ہوا یہ تھ کہ ایک شخص آی تھ نصرف درگہ میں پیش کر<br />
گی بل کہ جتے ہوئے بب جی کی سرکر میں بیٹھے ہوئے<br />
لوگوں کے جوتے بھی اٹھ کر لے گی۔<br />
ان میں سے ایک نے کہ: سرکر آپ نے اسے کیوں نہیں گرفت<br />
میں لی۔<br />
بب جی نے جواب کہ: میں نے اس ک تین کوس پیچھ کی تھ۔
دوسرے نے پوچھ: پھر سرکر آپ نے اسے پکڑا کیوں نہیں<br />
انہوں نے جواب کہ: اس کے جس میں کوئی حالل کی بوٹی لگی<br />
ہوتی تو ہی پکڑت۔<br />
ایک اور جو منفق تھ بوال: اگر آپ کہیں تو میں اس کو پکڑ<br />
الؤں۔<br />
بب جی نے اسے گہری نظر سے دیکھ اور پوچھ: پکڑ الؤ<br />
گے۔<br />
کہنے لگ: نہیں سرکر‘ یہ میرے بس ک روگ نہیں۔<br />
دنی میں رہتے ہوئے دیکھ گی ہے کہ جن کے جس سراپ حرا<br />
سے پھے پھولے ہوں کبھی گرفت میں نہیں آئے۔ گرفت کے<br />
ٹھیکے دار اپنے لقمے کی حرص میں ان کے قری سے بھی<br />
نہ یں گزرتے۔<br />
ہں البتہ حق اور سچ کے بندے گرفت سے کبھی بہر نہیں رہے۔<br />
ابوزر برقی کت خنہ فروری ٧فروری
کمؤ سوچ<br />
منسنہ<br />
1
کمؤ سوچ<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
لمبی کمئی منفی ہو کہ مثبت‘ اس کے لیے محنت‘ مشقت اور<br />
کوشش ہی کفی نہیں ہوتی‘ منصوبہ بندی کرنے کی بھی<br />
ضرورت ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کے لیے سوچن پڑت ہے۔<br />
کمئی کے لیے سود مند اور کمؤ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔<br />
تخیقی اور حصولی سوچ کے ملکوں کے کھیسے ہمیشہ بھرے<br />
رہتے ہیں ہتھ سے نکتی دولت بھی‘ اپنے ستھ مزید کچھ نہ<br />
کچھ ی کچھ نہ کچھ سے بہت زیدہ‘ سمیٹ کر واپس لوٹتی ہے۔<br />
جوں ہی سوچ کے دائرے سکڑتے ی کسی فکری ی حدثتی<br />
انقال کے بعث محدود پڑتے ہیں‘ مزید تو دور کی بت‘ گرہ<br />
لگی بھی جفرکری پر اتر آتی ہے۔<br />
سیٹھ بہشتی الل نے کمل ک دم پی تھ۔ شطر سے شطر<br />
لوگوں کی جی پر بالتکف اور بآسنی قنچی چال جت تھ۔<br />
سری عمر اس نے مل کھینچے کے ہنر آزمنے میں بت دی<br />
2
تھی۔ بڑھپے میں جنے بسنتو اس کی زندگی میں کیسے آ گئی۔<br />
وہ مردوں کے حواس پر گرفت کرنے میں اپن جوا نہیں رکھتی<br />
تھی۔ سیٹھ بہشتی الل بھال اس کے سمنے کی د رکھت تھ۔ خیر<br />
یہ تو اپنی اپنی فیڈ ہوتی ہے۔ اپنی فیڈ میں مہرت اور نت نئے<br />
تجربے ہی کمیبیوں سے ہ کنر کر سکتے ہیں۔ سیٹھ جو کسی<br />
کو جوں مر کر نہیں دیت تھ کی پئی پئی کمل ہنرمندی سے<br />
بسنتو نے ہتھی لی تھی۔<br />
سیٹھ نے بہت غور کی دم لڑای لیکن کچھ سمجھ میں نہ آ<br />
سک۔ بسنتو نے جہں مل کھینچ وہں اس کے سوچ ک بھی<br />
ستینس مر دی تھ۔ پھر اس نے اخبر میں اشتتہر دی کہ ایک<br />
ذہین اور ہوشیر مالز کی ضرورت ہے۔ کمی امیدوار کو ستر<br />
ہزار روپیے تنخواہ دی جئے گی۔ بہت سے امیدوار آئے لیکن<br />
کوئی منتخ نہ ہو سک۔<br />
دین الل نے بھی انٹرویو دی۔ سیٹھ کو وہ ک ک لگ اس لیے<br />
اسے منتخ کر لی گی۔ دین الل داللی ک دھندا کرت تھ۔ اپنے<br />
عالقے ک شطر ترین سمجھ جت تھ۔ مقول کم لیت تھ لیکن<br />
ستر ہزار مہنہ کمن تو وہ خوا میں بھی نہیں سوچ سکت تھ۔<br />
متخ ہو جنے کے بد اس نے سیٹھ سے اپنے ک کی<br />
تفصیالت دریفت کیں۔ سیٹھ نے جواب کہ کہ تمہیں یہ سوچن ہو<br />
گ کہ تین الکھ کہں سے آئیں۔<br />
3
جی! تین الکھہں ہں تین الکھ ۔۔۔۔۔ ستر ہزار تمہرے دو الکھ<br />
تیس ہزار میرے<br />
وہ کل آنے کی کہہ کر چال گی۔<br />
اگے دن وہ وقت پر ا گی اور کہنے لگ: آپ کی کمئی گہ کفی<br />
بڑی ہے۔ بسنتو ایسی بہت سی پھل جھڑیں آئیں گی بل کہ میں<br />
بق خود ال سکت ہوں۔ پھر دیکھن شہر کے امیر کبیر رئیس<br />
اعی مالز کس طرح آتے ہیں اور آپ کے چرن چھوتے ہیں۔<br />
بقی گل بت‘ خدمت اور دیکھ بھل کے لیے میں ہوں ن۔<br />
سیٹھ کو اس ک مشورہ پسند آ گی۔ انہوں نے کہ: گل بت میں<br />
خود کر لوں گ۔ ت منس اور صف ستھرا مل الن دیکھ بھل<br />
کرن اور ٹپ م یں سے آدھ میرا ہو گ۔ تمہیں مہنہ ستر ہزار<br />
متے رہیں گے۔<br />
ٹپ پر تھوڑا تکرار ہوا اور پھر مک مک ہو ہی گی۔<br />
4<br />
ک چل نکال۔<br />
بڑے بڑے شریف اور مزز بستو نواز اس حسن گہ ک طواف<br />
کرنے لگے۔ مل و دولت ہی ہتھ نہ لگے بڑی کغیوں والے<br />
سال دع میں داخل ہو گئے۔<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
مرچ ٧
1<br />
جیسے کو تیس<br />
منسنہ<br />
مقصود حسنی<br />
اکر بڑے حوصے واال تھ۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیت غصہ<br />
نہ کرت بس تھوڑا س سنجیدہ ہو جت۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی<br />
لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر بعد نرمل ہو جت۔ کی بت ہے‘<br />
پہڑ جگرے ک ملک تھ۔ شید یہ اسے وراثت میں مال تھ۔ اس<br />
ک بپ بھی کمل برداشت اور صبر ک ملک تھ۔<br />
زبن میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زبن<br />
قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس کی اس خمی کے سب لوگ اسے اکو<br />
طوے طوے کہہ کر پکرتے۔ ذرا غصہ نہ کرت۔ یوں ظہر ہوت<br />
جیسے اس ک ن ہی اکو طوے طوے رہ ہو۔<br />
ایک دن پت نہیں اسے کی سوجھی کہ عمرے‘ جو ہ س میں چنچل<br />
اور دھئی ک شغی تھ‘ سے کہنے لگ: میری طرح بتیں کرکے دکھ<br />
دو میں س کو قدے حوائی کی مٹھئی کھالؤں گ۔ عمرے نے دو تین<br />
بر منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح بتیں کرنے لگ۔ ایس لگت تھ<br />
کہ جیسے اس نے حد سے زیدہ اس طور سے بتیں کرنے کی مشق<br />
کی ہو۔ س حیران رہ گئے اور ایک دوسرے ک منہ دیکھنے لگے۔ اکو
2<br />
طوے طوے کو مٹھئی پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھئی<br />
کھالئی بھی۔<br />
ا ج بھی وہ ہمرے درمین بیٹھت ایک دو بتیں اکو کے طور پر<br />
ضرور کرت۔ سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگئی تھی۔ شید<br />
اسے امید ہی نہ تھی کہ وہ اس طور سے بت کر سکے گ۔<br />
اس بت کو کئی مہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح ضرور<br />
بت کرت اور یہ اس کی عدت سی بن گئی۔ ایک روز سکندر نے<br />
شرارت سے اسے عمرو توتال کہہ کر پکرا تو وہ بھڑک اٹھ اور اس<br />
پر بڑا گر ہوا۔ ا کہ اکو خو ہنس۔ اس ک چڑن بڑا ہی پرلطف تھ۔<br />
اس کے بعد ج بھی ہ میں سے کوئی شغل کے موڈ میں ہوت تو<br />
اسے عمرو توتال کہہ دیت۔ وہ فورا سے پہے آپے سے بہر ہو جت۔<br />
گؤں کے لوگوں کو ج اس کی چیڑ ک پت چال تو وہ اسے عمرو توتال<br />
کہہ کر پکرنے لگے اور اس کی بدحواسی سے خو لطف اندوز<br />
ہوتے۔ پھر کی تھ عمرو توتال اس ک ن پڑ گی۔ ج وہ چڑت تو اکو<br />
کہت اسے کہتے ہیں جیسے کو تیس۔ جو بیجو گے وہ ہی کٹو گے۔<br />
آج دونوں کو دنی چھوڑے کئی سل بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو اکو<br />
طوے طوے کہہ کر بہت ک ید کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو ہی کہتے<br />
ہیں ج کہ عمرو کو عمرو توتال کہہ کر ید کرتے ہیں حالں کہ وہ<br />
سرے سے توتال نہ تھ۔ گوی مرنے کے بعد بھی جیسے کو تیس لحد<br />
میں نہیں اتر سک۔<br />
ابوزر برقی کت خنہ فروری ٧