You also want an ePaper? Increase the reach of your titles
YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.
1
2<br />
قیمت دیکھیے<br />
منسنے‘ لوکنے اور شغالنے<br />
مقصود حسنی<br />
ابوزر برقی کت خنہ<br />
مرچ ٧
3<br />
فہرست<br />
سوال یہ نہیں تھ<br />
جیسے کو تیس<br />
وہ جنت تھ<br />
صرف اور صرف<br />
کھٹور کھٹنئی<br />
حالل کی بوٹی<br />
نہ جئے مندن نہ پئے رفتن<br />
سنیئر سیٹیزنز<br />
قیمت دیکھیے<br />
لا مف کرے<br />
قد قد پر<br />
ایسوں میں<br />
ہں البتہ<br />
چلیس برس ہونے<br />
کی تمہیں مو نہیں بت تو کوئی بڑی نہ تھی
4<br />
سوال یہ نہیں تھ<br />
منسنہ<br />
سوال یہ نہیں تھ کہ چوری کیوں ہوئی سوال یہ تھ چور کو<br />
چوری کرنے ک موقع کیوں فراہ کی گی۔ دوسرا گھر میں اگر<br />
کچھ تھ تو ہی چور کو موقع مال اور گھر میں چوری ہوئی۔ گھر<br />
کے ملک کی کوتہی کے سب نقص امن کی صورت نکی۔ گھر<br />
میں گربت اور عسرت ک پہرہ ہوت تو چوری نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ<br />
گری لوگوں میں صح حیثیت ک بھال کی ک۔ لوگ پھل سے<br />
بھرے آوارہ اور برسرع پیڑ کی طرف آتے ہیں۔ پھل لگ<br />
بملک پ یڑ ہمیشہ سے بعث عزت و احترا ٹھہرا ہے۔<br />
خوش حلی ک تقض تھ کہ رہئش فحش ایریے میں بنئی جتی۔<br />
صح حیثیت اور شرےف وہں ہی رہئش کرتے ہیں۔ وہں بنے<br />
گھروں سے بہر کچھ جت نہیں بل کہ محتف حوالوں اور<br />
ذریوں سے وہں ج کر محوظ ہو جت ہے۔ چور اچکے کی<br />
پھنے خں سے پھنے خں دہشت گرد بھی وہں کی فو الطرت<br />
مخو کو کورنش بج الت ہے۔<br />
ایک طرح سے چور نے عالقے کے لوگوں پر نیکی ہی کی۔ وہ<br />
عالقے میں تھوڑا الگ سے لگتے تھے اور لوگوں ک انہیں<br />
سال میں پہل کرن سمجی مجبوری تھی۔ ا ایک صف میں
5<br />
کھڑے ہو گئے تھے محمود و ایز۔ عین ممکن تھ کچھ ہی وقت<br />
بد وہ عالقے کی سپر پور کے طور پر سمنے آتے اور لوگوں<br />
کی ان اور عزت غیرمحوظ ہو جتے۔ انتظمیہ اور جمہ دو<br />
نمبری لوگ ان کے اشیرواد کے محتج ہو جتے۔<br />
شورےف کی بستی م یں گھر نہ بنن نشکری کے مترادف تھ۔<br />
نشکری کی سزا تو من تھ۔ ایک طرف اصول کی دھجیں اڑائی<br />
گئی تھیں اوپر سے الینی شور مچی ج رہ تھ کہ چوری ہو<br />
گئی ہے۔ چور ک اس میں آخر کی قصور تھ۔ یہ ان ک فرض تھ<br />
کہ گھر کی حظت ک خصوصی بندوبست کرتے۔ تلے اچھے<br />
خریدتے۔ چوتھے درجے کے کنڈے تلے کیوں لگئے گئے<br />
تھے۔ اگر اس طرح کے ممولی ممولی کموں کے لیے پس<br />
والے دوڑ بھگ کریں گے تو کر سرکر کس طرح انج دے<br />
سکیں گے۔<br />
کہ جت ہے کہ پس والوں کی تنخواہ مقول ہے حالں کہ اس ک<br />
حقیقت سے دور ک بھی ت واسطہ نہیں۔ یہ محض زبنی کالمی<br />
کی بت ہے۔ ایک شحص پنڈ پیسے بھر کر پس میں بھرتی ہوت<br />
ہے۔ اس کے بوجود اسے شرےف ک جیون میسر نہ ہو تو<br />
پیسے بھرنے کی ضرورت ہی کی ہے۔ اس قس کے الپرواہ جو<br />
اپنے گھروں کی حظت نہیں کر سکتے ہی ان کی جن بننے ک<br />
ذریہ بنتے ہیں۔
6<br />
پس والے بڑے بخبر لوگ ہوتے ہیں۔ اگر وہ خبرگیری میں تیز<br />
طرار نہ ہوں تو لو کالس زندگی کریں۔ جہز میں مختف والئتوں<br />
کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص فرانس ک تھ کہنے<br />
لگ ہمری پولیس چوبیس گھنٹے میں چور تالش کر لیتی ہے۔<br />
جرمن ک بشندہ ہنس اور کہنے لگ کہ یہ کون س کرنمہ ہوا۔<br />
ہمری پولیس برہ گھنٹوں میں تالش کر لیتی ہے۔ س بڑے<br />
حیران ہوئے۔ وہں ہمرے عالقے ک بشندہ بھی تشریف فرم<br />
تھ۔ دونوں مکوں کے بشندوں کی پولیس کی غیر ذمہ دار پر<br />
ہنس اور کہنے لگ او پگو ت ہمرا مقبہ نہیں کر سکتے<br />
ہمری پولیس کو تو چوبیس گھنٹے پہے مو ہوت ہے کہ ک<br />
اور کہں چوری ہونے والی ہے۔ اتنی ًمخبری تو کہ یں نہیں ہو<br />
سکتی۔<br />
خیر چوری تو ہوئی تھی اس لیے اس گھر کے لوگ پکڑ<br />
لیے گئے کہ آخر الپرواہی سے ک کیوں لی گی۔ جن پر<br />
شک تھ وہ بھی ال کر حواالت میں بند کر دیے گئے۔ اطراف<br />
کے ہ سیوں پر بھی گرفت کی گئی کہ ہمسیہ مں پیو جی<br />
ہوت ہے وہ اپنے ہ سئے کے برے میں اتنے الپرواہ<br />
کیوں ہو گئے۔ گھر کے بڑے لڑکے پر شک کی گی کہ وہ<br />
بےشک چوروں سے مال ہو گ۔ ملک کو اس لیے کڑی<br />
سختی میں رکھ گی کہ عین ممکن ہے مل مں کے ہں<br />
پنچ آی ہو اور چوری ک نٹک رچ رہ ہو۔ بقول گھر کی
7<br />
بیگ کے کہ اس کے مئی بپ بڑے لوبھی ہیں اور انہوں<br />
نے ہمرا کچھ بننے ہی نہیں دی۔<br />
تھنے میں ایک طرف سوگ وار تو دوسری طرف عید ک سمں<br />
تھ۔ س منت سمجت سے ک لے رہے تھے لیکن متے میں<br />
بت نہ بن رہی تھی۔ بےچرے ممبر کو ہی زحمت اٹھن پڑی اور<br />
وہ اپنے اور اپنوں کے ک کج چھوڑ کر آ گی۔ تھنے والوں<br />
سے مک مک کی اور اس وعدہ پر رہئی دلوائی کہ وہ آتے<br />
الیکشوں میں اسے ووٹ دیں گے۔ بال شبہ وہ برے وقت میں ان<br />
کے ک آی تھ ووٹ ک صحیح اور اصولی ح دار تھ۔<br />
پچھواڑے کے ہ سئے گری تھے کچھ نہ جھڑ سکے اس<br />
لیے چوری کے الزا میں ان کے دونوں بیٹوں کے خالف ایف<br />
آئی آر درج کر لی گئی۔ برآمدی بھی ڈال دی گئی۔ برآمدی کے<br />
سمن سے مدعی مت نہ تھے۔ خیر ان کے مت ہونے ی نہ<br />
ہونے سے کی فر پڑت تھ پولیس والے تو مت تھے‘ بس اتن<br />
ہی کفی تھ۔ ا ممہ کورٹ کچہری میں تھ۔ پولیس ک جہں<br />
تک فرض تھ اس نے ممے کو عصری اصولوں کے مطب<br />
طے کر دی۔ ا عدالت جنے ممے کے مدعی اور مز جنیں۔
8<br />
جیسے کو تیس<br />
منسنہ<br />
اکر بڑے حوصے واال تھ۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیت غصہ<br />
نہ کرت بس تھوڑا س سنجیدہ ہو جت۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی<br />
لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر بد نرمل ہو جت۔ کی بت ہے‘<br />
پہڑ جگرے ک ملک تھ۔ شید یہ اسے وراثت میں مال تھ۔ اس<br />
ک بپ بھی کمل برداشت اور صبر ک ملک تھ۔<br />
زبن میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زبن<br />
قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس کی اس خمی کے سب لوگ اسے اکو<br />
طوے طوے کہہ کر پکرتے۔ ذرا غصہ نہ کرت۔ یوں ظہر ہوت<br />
جیسے اس ک ن ہی اکو طوے طوے رہ ہو۔<br />
ایک دن پت نہیں اسے کی سوجھی کہ عمرے‘ جو ہ س میں<br />
چنچل اور دھئی ک شغی تھ‘ سے کہنے لگ: میری طرح بتیں<br />
کرکے دکھ دو میں س کو قدے حوائی کی مٹھئی کھالؤں گ۔<br />
عمرے نے دو تین بر منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح بتیں<br />
کرنے لگ۔ ایس لگت تھ کہ جیسے اس نے حد سے زیدہ اس<br />
طور سے بتیں کرنے کی مش کی ہو۔ س حیران رہ گئے اور<br />
ایک دوسرے ک منہ دیکھنے لگے۔ اکو طوے طوے کو مٹھئی<br />
پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھئی کھالئی بھی۔
9<br />
ا ج بھی وہ ہمرے درمین بیٹھت ایک دو بتیں اکو کے طور<br />
پر ضرور کرت۔ سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگئی<br />
تھی۔ شید اسے امید ہی نہ تھی کہ وہ اس طور سے بت کر<br />
سکے گ۔<br />
اس بت کو کئی مہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح<br />
ضرور بت کرت اور یہ اس کی عدت سی بن گئی۔ ایک روز<br />
سکندر نے شرارت سے اسے عمرو توتال کہہ کر پکرا تو وہ<br />
بھڑک اٹھ اور اس پر بڑا گر ہوا۔ ا کہ اکو خو ہنس۔ اس ک<br />
چڑن بڑا ہی پرلطف تھ۔ اس کے بد ج بھی ہ میں سے کوئی<br />
شغل کے موڈ میں ہوت تو اسے عمرو توتال کہہ دیت۔ وہ فورا<br />
سے پہے آپے سے بہر ہو جت۔ گؤں کے لوگوں کو ج اس<br />
کی چیڑ ک پت چال تو وہ اسے عمرو توتال کہہ کر پکرنے لگے<br />
اور اس کی بدحواسی سے خو لطف اندوز ہوتے۔ پھر کی تھ<br />
عمرو توتال اس ک ن پڑ گی۔ ج وہ چڑت تو اکو کہت اسے<br />
کہتے ہیں جیسے کو تیس۔ جو بیجو گے وہ ہی کٹو گے۔<br />
آج دونوں کو دنی چھوڑے کئی سل بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو<br />
اکو طوے طوے کہہ کر بہت ک ید کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو<br />
ہی کہتے ہیں ج کہ عمرو کو عمرو توتال کہہ کر ید کرتے ہیں<br />
حالں کہ وہ سرے سے توتال نہ تھ۔ گوی مرنے کے بد بھی<br />
جیسے کو تیس لحد میں نہیں اتر سک۔
10<br />
وہ جنت تھ<br />
منسنہ<br />
فیجں کے تی ابو اسے منے کے لیے آئے۔ دیکھ بدرا گھر پر<br />
اکیال ہی بیٹھ ہوا تھ۔ ابتدائی سال دع کے بد بیٹھ گئے۔<br />
بیٹھنے کے فورا بد فیجں ک دریفت کی کہ کہں ہے۔ اس نے<br />
ذرا تخ لہجے میں کہ اسے دورہ پڑ گی تھ اور ٹیکہ لگوانے<br />
گئی ہے۔ یہ سن کر فورا اٹھ گئے اور چل دیے۔ اس کے روکنے<br />
کے بوجود نہ رکے۔<br />
انہوں نے گھر سے بہر آ کر اس کے بڑے بھئی جو گر اور<br />
تخ مزاج ک تھ کو فون کی اور بتی کہ اس کی بہن کو دورہ پڑ<br />
گی ہے اور وہ ہسپتل میں ہے اور تمہرا بہنوئی آرا سکون<br />
سے گھر بیٹھ ہوا ہے اور اسے بیوی کی رائی بھر چنت نہیں۔<br />
اس نے ک سے چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر آ کر مں پر<br />
خو گرج برس کہ اس کی پیری بہن ک کس الپرواہ سے رشتہ<br />
کر دی تھ۔ مں نے خوند کو بوای وہ بھی ک چھوڑ کر گھر آ<br />
گی۔<br />
اچھ خص شور مچ۔ پورے محہ میں یہ بت مشہور ہو گئی کہ<br />
فیجں کو دورہ پڑ گی ہے اور اس ک خوند بڑی الپرواہی سے<br />
گھر پر آرا کر رہ ہے۔ یہ بت از خود مشہور ہو گئی کہ فیجں
11<br />
کے خوند نے اسے کچھ کر دی ہے اور وہ ہسپتل میں آخری<br />
دموں پر ہے۔ ایک صح ہ دردی میں آ کر فیجں کے قتل کی<br />
سزش کی اطالع قریبی تھنے میں بھی کر آئے۔<br />
گھر ک سرا ال لشکر بدرے کے گھر آ پہنچ اور اس کی کچھ<br />
سنے بغیر ہی اس پر جوتوں سمیت چڑھ دوڑا۔ وہ ان کی لغویت<br />
بڑے تحمل سے سنت رہ۔ اس ک سال نہلہ تو بر بر اسے<br />
مرنے کے لیے اس کی طرف آت۔ وہ تو بھال ہو مموں ش ک<br />
جو اسے روک لیت۔ اس ک موقف یہ تھ کہ اگر کوئی سٹ پیٹ آ<br />
گئی تو کیس برابر ہو جئے گ اور بدرا کڑی سزا سے بچ جئے<br />
گ۔<br />
ابھی یہ رگڑا جھگڑا چل ہی رہ تھ کہ پولیس آ گئی انہوں نے آؤ<br />
دیکھ نہ تؤ بدرے کی خو ٹھکئی کر دی۔ ان سے ایک پولیس<br />
:واال کہنے لگ<br />
کنجر کہ یں ک۔ بیوی کو قتل کر رہ تھ۔<br />
لظ کنجر پر وہ بھڑک اٹھ اور کہنے لگ: میں کنجر نہ یں<br />
بےغیرت ہوں۔<br />
اس کی گرج دار آواز اور اس کے الظ سن کر س سکتے میں<br />
آ گئے کہ یہ کی کہہ رہ ہے۔ کسی نے یہ کھوجنے کی ضرورت<br />
ہی محسوس نہ کی تھی کہ وہ دورے ی شدید زخمی حلت میں<br />
ہسپتل اپنے پؤں پر کیسے چی گئی۔
12<br />
پولیس اسے پکڑ کر لے ج رہی تھی اور ابھی گھر کے دروازے<br />
سے بہر بھی نہ نکل پئی تھی کہ فیجں چنگی بھی گھر میں<br />
داخل ہوئی۔ اس پر خمر کی سی کییت طری تھی۔ وہں موجود<br />
لوگوں نے اس کی خمری کییت نوٹ کی۔ جوں اس نے گھر<br />
میں اتنے سرے لوگ اور پولیس دیکھی تو جنسی آسودگی کے<br />
خمر سے بہر آ گئی۔ فیجں کو ٹھیک ٹھک دیکھ کر س حیران<br />
رہ گئے۔ اس ک بڑا بھئی غصے سے بوال کہں گئی تھی۔ ادھر<br />
ہی تھی ادھر ہی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ پولیس نے اس کے بھئی<br />
کو پرے دھک دی اور فیجں سے پوچھنے لگے کہ بی بی ت<br />
کہں گئی تھیں۔ اس نے کوئی جوا نہ دی۔ دریں اثن فیجں ک<br />
بپ پولیس والے کی طرف بڑھ اور اس کی مٹھی میں کچھ لگ<br />
دی۔ پولیس والے خموشی سے گھر سے بہر نکل گئے۔<br />
سین آدمی تھ پولیس کے چے جنے کے بد بوال۔ ہمیں اطالع<br />
کی تصدی کر لینی چہیے تھی اور ہ دوڑے آئے۔ ان کے گھر<br />
ک مسہ تھ۔ میں بیوی میں جھگڑا ہو ہی جت ہے یہ کون سی<br />
بڑی بت ہے۔<br />
فیجں ک خوند منہ کھولنے کو ہی تھ کہ اسے خیل گزرا کہ وہ<br />
تو بیمر شمر رہت ہے اس ک کی پت ہے۔ غطی پر تو فیجں ہے<br />
اور وہ اپنی عزت ک خیل نہیں کر رہی۔ اگر اس نے بھری مجس<br />
میں فیجں کی کرتوتوں کو نشر کر دی تو اس ک اکوت بیٹ جو<br />
ہسٹل میں داخل تھ مرتے د تک یہ طنہ سنت رہے گ کہ اس
13<br />
کہ مں ایک فحشہ عورت ہے۔ یہ طنہ سن کر وہ کس طرح<br />
پرسکون زندگی گزار سکے گ۔ چو کوئی بت نہیں وہ عورت کی<br />
کمئی تو نہیں کھ رہ۔ اپنی کرنی خود بھگتے گی۔ وہ دال نہیں<br />
بےغیرت ہے اور اسے اس بےغیرتی کی آگ میں چند اور<br />
سنسوں جن پڑے گ۔ اگر ستھ بھیج دیت تو چند مزز بیچ میں<br />
پڑ کر صح صئی کرا دیتے ی عرصہ دراز تک کچہری کی خک<br />
چھنن پڑتی۔ ہوت کی‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ خو جنت تھ کہ اس<br />
اندھر نگری میں کچھ بھی نہ ہو سکے گ۔ یہں ح سچ آنچ میں<br />
جت ہے اور دغ فری کو کوئی آنچ نہیں۔
14<br />
صرف اور صرف<br />
لوکنہ<br />
ایک خوشمدی نے بدشہ سے کہ: حضور آپ کی کی بت ہے۔<br />
آپ س نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگ۔ آپ کی بڑی لمبی<br />
عمر ہے اور آپ ت دیر سالمت رہیں گے۔ ج کوئی نہیں ہو گ<br />
ت بھی آپ کی بدشہت قئ ہو گی۔ دری کی منہ زور لہر یں بھی<br />
آپ کے حک کی تبع ہیں اور تبع رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حک<br />
کے بغیر حرکت میں نہیں آتیں۔<br />
خوش آمدی کے کہے نے بدشہ کی روح کو سکون دی اور دل<br />
تر وتزہ کر دی۔ اس نے بہت سی اشرفیں اس کی آغوش میں<br />
ڈال دیں۔<br />
بدشہ نے پس کھڑے گمشتے سے کہ۔ رمی کو بواؤ۔<br />
اس نے فورا سے پہے ایچی کو حک دی کہ رمی کو شہی<br />
دربر میں حضر کی جئے۔<br />
وہ تیر کی طرح اڑت ہوا رمی کو بالنے چال گی۔ دریں اثن بدشہ<br />
نے جی حضوریے سے کہ کہ ہمرا تخت فوری طور پر دری کے<br />
کنرے لگوای جئے۔ جی حضوریہ بدشہ کے حک کی تمیل<br />
میں جٹ گی۔
15<br />
رمی آ گی۔ بدشہ نے کہ کہ ہمرے اس کرندے نے کہ ہے کہ<br />
ہ تدیر جیئں گے۔ ج کچھ بھی نہیں ہو گ اس وقت بھی ہمری<br />
بدشہت قئ ہو گی۔ بتؤ اس ک کہن کہں تک درست ہے۔<br />
رمی تھوڑی دیر تک حس کت لگت رہ۔ وہ جنت تھ کہ<br />
بدشہ سچ اور ح کی سننے کے عدی نہیں ہوتے۔ ح سچ کی<br />
کہنے والے ہمیشہ جن سے گیے ہیں۔ اگر اس نے بھی آج ح<br />
سچ کی کہی تو جن سے جئے گ۔ خوشمدی ان و اکرا لے<br />
کر گی ہے اور وہ اپنے قدموں واپس گھر نہ ج سکے گ۔ پھر<br />
اس نے جی خوش خبری لبریز خوشی کے ستھ اس خبر کی<br />
تصدی کر دی۔ یہ ہی نہیں اس نے پن ست جمے اپنے پس<br />
سے بھی جڑ دیئے۔<br />
رمی کی بتوں نے بدشہ کو خوش کر دی ہں البتہ خوش آمدی<br />
پر نراض ہوا کہ اس نے سری بتیں کیوں نہیں بتئیں۔<br />
اسی دوران حک شہی کی تمیل میں بدشہ ک تخت دری کنرے<br />
آراستہ کر دی گی۔ بدشہ چیوں‘ چمٹوں‘ گمشتوں‘ خوش<br />
آمدیوں وغیرہ کے ستھ دری کنرے لگے تخت پر آ بیٹھ۔ سرد<br />
اور رومن خیز ہوا نے اسے بہت لطف دی۔ بدشہ نے محول<br />
اور فض کی تریف کی اور آئندہ سے دری کنرے تخت آراستہ<br />
کرنے ک حک دی۔ کسی کو اصل حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔
16<br />
بدشہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھ کہ دری<br />
کی ایک منہ زور لہر آئی س کچھ بہ کر لے گئی۔ بدشہ کی<br />
ٹنگیں اوپر اور سر نیچے ہو گی۔ بدشہ ک تخت بہت ہوا جنے<br />
کہں چال گی اور وہ خود بہت ہوا اپنی سطنت کی حدوں بہت دور<br />
نکل گی۔ دیکھ وہں ویرانیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھ۔ کسے<br />
حک جری کرت کہ اسے اس کے قدموں پر کرے۔ ہں لا کے<br />
حک کی تمیل میں موت ک فرشتہ اس کے سمنے کھڑا مسکرا<br />
رہ تھ اور چند لمحوں کی مہت دینے کے لیے بھی تیر نہ تھ۔<br />
رمی سین تھ ت ہی تو خبر کی تصدی اور اپنے جھوٹ ک<br />
ان لے کر چپکے سے دربر سے کھسک گی تھ۔<br />
دری کی ایک لہر نے ثبت کر دی کچھ بقی رہنے کے لیے نہ یں<br />
ہے۔ بق صرف اور صرف لا ہی کی ذات کے لیے ہے۔
17<br />
کھٹور کھٹنئی<br />
لوکنہ<br />
کی عج طور ہے ک کرنے والے ی مننے والے پر مزید بوجھ<br />
ڈاال جت ہے ج کہ نکمے ک چور ی نہ مننے والے کو دفع<br />
کرو کے کھتے میں رکھ جت ہے۔<br />
ایک شخص کلی مت ک منت تھ ج کہ اس ک بڑا بھئی کلی<br />
مت کو نہیں منت تھ۔ ایک دن کلی مت نے اسے کہ: اپنے<br />
بڑے بھئی سے کہو مجھے منے اور میری بھگتی کرے اگر نہ<br />
من تو میں تمہری ٹنگ توڑ دوں گی۔<br />
اس نے اپنے بڑے بھئی سے کہ کہ کلی مت کو من لے ورنہ<br />
وہ میری ٹنگ توڑ گی۔<br />
اس نے بھئی کو کلی مت کی وارننگ سے مطع کی اور کلی<br />
مت کو مننے کی استدع بھی کی۔<br />
بڑے بھئی نے اسے مننے سے صف انکر کر دی۔ حک کی<br />
تمیل نہ ہونے کے سب کلی مت نے اس کی ٹنگ توڑ دی۔<br />
اس نے بھئی سے کہ دیکھو کلی مت نے میر ی ٹنگ توڑ دی<br />
ہے۔ اگر آپ کلی مت کو من لیتے تو وہ میری ٹنگ تو نہ<br />
توڑتی۔
18<br />
بڑے بھئی نے کہ یہ اتقیہ ہو گی ہے اور اس میں کلی مت ک<br />
کوئی عمل دکل نہیں۔ بےچرہ چپ ہو گی۔<br />
اگی مرتبہ کلی مت اسے پھر می اور کہنے لگی بھئی کو قئل<br />
کرو اگر وہ قئل نہ ہوا تو م یں تمہرا بزو توڑ دوں گی۔<br />
چھوٹے بھئی نے پھر سے بڑے بھئی کو کلی مت کی وارننگ<br />
سے آگہ کی۔ اس نے بڑی منتیں بھی کیں ہر طرح سے قئل<br />
کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر بھی نہ من۔ کلی مت نے اس<br />
ک بزر توڑ دی۔ چھوٹے بھئی نے بڑے بھئی کو آگہ کی اور<br />
کہ آپ کے نہ مننے سے میں ٹنگ اور بزو سے محرو ہو<br />
گی۔ اس نے اس ممے کو محض اتقت سے تبیر کی۔<br />
کلی مت اسے تیسری بر پھر می اور کہنے لگی دیکھو ت نے<br />
میرے کہے ک پلن نہیں کی۔ ا میں تیسرا موقع دیتی ہوں اگر<br />
ا بھی نہ من تو تمہی گردن توڑ دوں گی۔<br />
ا کہ تو اس نے منت سمجت کی حد کر دی لیکن بڑے بھئی<br />
کے کن پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ بڑا پریشن ہوا‘ کی ہو سکت<br />
تھ۔ دوسری طرف کلی مت بھی مجبور تھی اگر وہ گردن نہ<br />
توڑتی تو اپنے کہے میں جھوٹی پڑتی۔ اس پر بور ہو جت کہ<br />
بڑا بھئی ٹھیک کہت تھ کہ ہر مرتبہ کی ہونی محض اتقت میں<br />
تھ۔ اپنے بھگت کی گردن توڑن کلی مت کی مجبوری تھی لہذا<br />
اس نے اس کی گردن توڑ دی۔
19<br />
بڑا بھئی افسوس کرنے والوں کے ستھ بیٹھ ہوا تھ اور کہہ<br />
رہ تھ کہ چھوٹ تنگے سے گرنے کی وجہ سے ٹنگ سے<br />
محرو ہو گی تو اس نے اسے کلی مت ک کرنمہ قرار دے دی۔<br />
دیوار سے گرا تو اسے بھی اس نے کلی مت کی کروائی میں<br />
شمل کر دی ا ج کہ چھت سے گر کر گردن تڑوا بیٹھ۔ جیتے<br />
جی اسے بھی کلی مت کے کھتے میں ڈال رہ تھ۔ اگر میں<br />
اسے کلی مت کی کروائی من بھی لوں تو اس ک مط یہ ہو<br />
گ کہ کلی مت اپنے بھگتوں کی رکھش سے زیدہ ان کی مرتیو<br />
ک کرن بنتی ہے۔ اسے من کر میں کیوں مرتی کو گے لگؤں۔<br />
پت نہیں مجھ سے کون س الٹ سیدھ ک کرواتی۔ اچھ ہی ہوا<br />
جو میں نے اس کو نہ من ورنہ میں بھی کسی کھٹور کھٹنئی<br />
کی گرفت میں آ چک ہوت۔
20<br />
حالل کی بوٹی<br />
لوکنہ<br />
ایک بب جی کی سرکر میں بہت سے لوگ حضر تھے۔ بب جی<br />
انہیں اچھئی اور خیر ک درس دے رہے تھے۔ پھر اچنک ان کی<br />
آواز بند ہو گئی۔ وہ فرم رہے تھے محنت اور مشقت کی کھؤ۔<br />
تمہرا جس خیر و برکت سے لبریز ہو جئے گ۔ حرا اور<br />
دوسرے کی کمئی ک چرای ی ہتھیی ایک لقمہ تمہیں شیطن کی<br />
بستی میں لے جئے گ۔ وہ دیر تک رز حالل اور رز حرا<br />
کے فر کو واضح کرتے رہے پھر اچنک خموش ہو گئے اور<br />
پھر دیر تک خموش رہے۔<br />
ہوا یہ تھ کہ ایک شخص آی تھ نصرف درگہ میں پیش کر<br />
گی بل کہ جتے ہوئے بب جی کی سرکر میں بیٹھے ہوئے<br />
لوگوں کے جوتے بھی اٹھ کر لے گی۔<br />
ان میں سے ایک نے کہ: سرکر آپ نے اسے کیوں نہیں گرفت<br />
میں لی۔<br />
بب جی نے جواب کہ: میں نے اس ک تین کوس پیچھ کی تھ۔<br />
دوسرے نے پوچھ: پھر سرکر آپ نے اسے پکڑا کیوں نہیں<br />
انہوں نے جواب کہ: اس کے جس میں کوئی حالل کی بوٹی لگی
21<br />
ہوتی تو ہی پکڑت۔<br />
ایک اور جو منف تھ بوال: اگر آپ کہیں تو میں اس کو پکڑ<br />
الؤں۔<br />
بب جی نے اسے گہری نظر سے دیکھ اور پوچھ: پکڑ الؤ<br />
گے۔<br />
کہنے لگ: نہیں سرکر‘ یہ میرے بس ک روگ نہیں۔<br />
دنی میں رہتے ہوئے دیکھ گی ہے کہ جن کے جس سراپ حرا<br />
سے پھے پھولے ہوں کبھی گرفت میں نہیں آئے۔ گرفت کے<br />
ٹھیکے دار اپنے لقمے کی حرص میں ان کے قری سے بھی<br />
نہ یں گزرتے۔<br />
ہں البتہ ح اور سچ کے بندے گرفت سے کبھی بہر نہیں رہے۔
22<br />
نہ جئے مندن نہ پئے رفتن<br />
منسنہ<br />
کسی کے ممے میں یوں ہی ٹنگ اڑان بال ط مشورہ دین ی<br />
ذاتی ممالت میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہں کسی<br />
برائی سے روکن مجھے کبھی برا نہیں لگ۔ کوئی غصہ کرت ہے<br />
تو کرت رہے‘ میں نےکبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھئی کے<br />
زمرے میں‘ میں کسی کمپرومئز ک قئل نہیں۔ برائی کو ہر حل<br />
میں برائی ہی کہ جن چہیے۔ برائی کی تئید ی خموشی بہت<br />
بڑے سمجی نقصن ک موج ہو سکتی ہے۔<br />
میں کسی کے کی اپنی اوالد کے ذاتی گھریو ممالت میں دخل<br />
اندازی ک قئل نہیں۔ ہں البتہ مشورہ ط کرنے کی صورت میں<br />
بڑی دینت داری سے دو ٹوک اور بال لگی لپٹی اپنی رائے ک<br />
اظہر کر دیت ہوں۔ یہ پہال موقع تھ کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اور<br />
جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لی کہ وہ گھر میں صرف دو<br />
لوگ رہتے ہیں تو پھر اتن گوشت کیوں لے کر جتے ہو۔ مہمن<br />
بھی کوئی خص آتے جتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل<br />
کھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگ۔ میری بیگ صرف گوشت کھن<br />
پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مختف نوعیت کی ڈیشیں بننے میں<br />
مہرت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت
23<br />
پسند نہیں کرت۔ لیگ پیس تو اس کی من بھتی کھ ج ہے۔ رات<br />
کو آخر سون بھی ہوت ہے۔<br />
ابے لیگ پیس اور رات کو سون بھی ہوت ہے کوئی میل کھتی<br />
بت نہیں۔ بلکل بےسری سی کہہ گئے ہو<br />
جن بےسری نہیں حقیقت اور میل کھتی ہوئی بت کی ہے۔<br />
وہ کیسے‘ میں سجھ نہیں<br />
جن مر کی ٹنگیں نہیں ال کر دوں گ تو ہو سکت ہے کہ رات<br />
کو اس ک موڈ بن جئے اور اٹھ کر میری ایک ی زیدہ ضرورت<br />
کی صورت میں دونوں ہڑپ جئے اور مجھے صبح اٹھ کر پت<br />
چے۔ ایک ٹنگوں سے جؤں اوپر سے یہ من سنوں‘ ت جی<br />
کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بت ہے کہ میری کوئی جی ہی نہیں<br />
جی تو اسی کی ہے۔<br />
میں اس کی بت پر ہنس بھی اور مجھے اس کی کمل کی مبلغہ<br />
آرائی نے لطف بھی دی،<br />
اس نے بتی کہ اس کی زوجہ سرکر نے فقط چر شو پلے<br />
ہیں۔ کھن‘ لڑن‘ سون اور چوتھ ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چروں میں<br />
سے کسی ایک پر کمپرومئز نہیں ہو سکت۔ لڑائی میں<br />
چردیواری میں مقل آواز کی قئل نہیں۔
24<br />
اس کی آواز صور اسرافیل سے ممثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و<br />
دیوار پر لرزہ طری ہوجت ہے۔ لظوں کے پھوٹتے انگرے<br />
میرے وجود اور روح کو چھنی کر رہے ہوتے ہیں ج کہ محہ<br />
لظوں کی ادائیگی اسو اور نشت و برخواست سے لظف اندوز<br />
ہو رہ ہوت ہے۔ وہ ان لمحت میں غط اور صحیح کو ایک آنکھ<br />
سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نکتے زہر آلود لظ‘<br />
لظ ک حویہ کے دہکتے انگرے زیدہ ہوتے ہیں جو ان اور<br />
ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان<br />
خوف نک لمحوں میں کنوں میں شئیں شئیں ہوتی ہے اور<br />
آنکھوں میں اندھیرا چھ رہ ہوت ہے۔ اپنی خیر منتے کوئی بچ<br />
بچ کے لیے راہ میں نہیں آت۔<br />
دسمبر کی قی بن دینے والی سردی میں پنکھ فل اسپیڈ پر چال<br />
کر استراحت فرمتی ہے۔ سوچت ہوں جہن میں گئی تو جہن کی<br />
آگ ک اس پر کی اثر انداز ہو سکے گی ہں البتہ اس میں تیزی<br />
ضرور آ جئے گی۔ بےچرے جہنمیوں پر مزید قیمت توڑے گی۔<br />
ایک مرتبہ غطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجئے نیچے<br />
پھینک بیٹھ۔ یہ ننگے پؤں تھی اس ک پؤں سگریٹ پر آ گی۔<br />
یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی ہو۔ میرے ستھ جو ہوا<br />
اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکشف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو<br />
بھی جالتی ہے اور ک زور آگ ازیت ک شکر ہوتی ہے۔
25<br />
پھر خیل گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہں<br />
ک محول حبسی ہو جئے گ۔ اس بت کو چھوڑیے میرا کی بنے<br />
گ۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر<br />
چھوٹی موٹی غطی پر یغر ک کشن جری کرتی رہے گی۔<br />
میں اٹھن چہت تھ کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان<br />
کی را کہنی خت ہونے ک ن نہیں لے رہی تھی۔ میری کییت نہ<br />
جئے مندن نہ پئے رفتن کی سی تھی۔ اٹھت ہوں تو بد اخالقی<br />
بیٹھ رہت ہوں تو دم میں سوراخ ہو رہے تھے۔ پہے تو میں<br />
مداخت کو غیراخالقی ک سمجھت تھ لیکن ا مو ہوا کہ<br />
مداخت وقت اور دم کے زیں سے زیدہ چیز نہیں۔ میں نے<br />
دل ہی دل میں توبہ کی کہ اس کے بد ایسی غطی نہیں کروں<br />
گ۔ دو حرفی بت کو انہوں نے شیطن کی آنت بن دی۔
26<br />
سنیئر سیٹیزنز<br />
لوکنہ<br />
لڑکی والوں نے کہ کہ برات کے ستھ کوئی بوڑھ نہیں آن<br />
چہیے۔ بڑی عج اور بےتکی ڈیمنڈ تھی۔ ایک طرح سے یہ<br />
بزرگوں کو مسترد کر دینے کے مترادف تھ۔ آخر بڑے بزرگوں<br />
کو کس طرح نظرانداز کی جئے۔ گھر کے س لوگ مل کر بیٹھ<br />
گیے اور سوچنے لگے کہ یہ کیوں کہ گی ہے اور اس ک کی حل<br />
نکال جئے۔ ہر کسی نے یہ ہی مشورہ دی جئے کہ رشتہ ہی<br />
چھوڑ دی جئے لیکن گمے کے اب ک موقف تھ کہ ہ اپنی منگ<br />
کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔ آخر طے یہ پی کہ بڑے اب جو<br />
بیمر تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے سے مشورہ لی جئے۔<br />
بڑے اب اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ دو تین لوگ ان کے<br />
پس گئے اور سرا مجرا انہیں کہہ سنی گی۔ انہوں نے کچھ دیر<br />
کے لیے سوچ پھر کہنے لگے کہ ڈیمنڈ من لو اور مجھے<br />
کسی نکسی طرح چھپ کر ستھ لے جؤ۔ س نے کہ چو تھیک<br />
ہے۔<br />
ان کے کہے پر س نے آمین کہ اور پھر جنج تیر ہونے لگی۔<br />
بڑے اب کو ایک صندو میں چھپ لی گی اور ہنسی خوشی<br />
واجے واجتے ہوئے دلہن کے گھر کی راہ لی گئی۔ بڑے اب کو
27<br />
صندو ہی میں ہر چیز مہی کر دی گئی۔ جنج میں شمل چند ایک<br />
کے سوا کوئی نہیں جنت تھ کہ بڑے اب ستھ کر لیے گئے ہیں<br />
کیوں کہ بت نکل سکتی تھی۔<br />
نکح وغیرہ کی رس سے فر ہوئے اور روٹی کھنے سے<br />
پہے کڑی والوں نے کہ ہر جنجی کے لیے ایک دیگ ک اہتم<br />
کی گی ہے اور وہ اسے کھن ہی ہو گی اگر نہ کھئی تو کڑی<br />
نہیں ٹوریں گے۔ یہ سنن تھ کہ س کو ہتھڑے پڑ گئے۔ ایک<br />
شخص کے لیے ایک دیگ ک کھن ممکن ہی نہ تھ۔ بت بڑے اب<br />
تک الئی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے سوچ پھر کہنے لگے<br />
ٹھیک ہے منظور کر لو اور کہہ دو کہ ایک وقت میں ایک دیگ<br />
پک کر کھن دسترخوان پر پروسیں۔ اس طرح ایک ایک دیگ<br />
پکتے جئیں۔<br />
کڑی والوں سے کہ گی کہ ٹھیک ہے ہر جنجی ایک ہی دیگ<br />
کھئے گ تہ ایک وقت میں ایک پکئی اور پروسی جئے۔ کڑی<br />
والوں نے ان کی بت من لی اور ک شروع ہو گی۔ وہ ایک ایک<br />
دیگ پکتے گئے یہ کھتے گیے۔ اس عمل سے کڑی والوں کی<br />
شرط پوری کر دی گئی۔ ہر جنجی بآسنی ایک دیگ کھ گی۔<br />
س حیرت میں ڈو گئے کہ یہ کی ہو گی ہے۔ کڑی ک بڑا بھئی<br />
کہنے لگ ت لوگ ضرور اپنے ستھ کوئی بب الئے ہو ورنہ<br />
ہمری شرط پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
28<br />
اس بت نے ثبت کر دی کہ ببے چوں کہ تجربہ کر ہوتے ہیں<br />
اس لیے اوکڑ ک حل نکل ہی لیتے ہیں۔ اس روز سے ہر دو<br />
عالقوں میں ببوں کی قدر کی جنے لگی۔<br />
کش سرے عالقوں میں سنیئر سیٹیزنز کو خصوصی نظر سے<br />
دیکھ جئے۔ بڑھپے کے سب وہ اس ک ح بھی رکھتے ہیں۔
29<br />
قیمت دیکھیے<br />
منسنہ<br />
مردود رد سے ہے۔ رد کی گئی چیز پسند میں نہیں آنی چہیے۔<br />
سچئی اور نیؤ کی تو یہ ہی ہے لیکن عمل سے سوائے<br />
محدودے چند اس سے کنرہ کش نہیں ہوئے۔ منہ زبنی رد پر<br />
لنت کرنے اور پنہ منگنے والے ہی اسی کی آغوش میں<br />
آسودگی محسوس کرتے چے آئے ہیں‘ ج کہ اس سے کوسوں<br />
دور بسنے والے گنتی کے چند ان زبنی کالمی کی پنہ مگنے<br />
والوں کے ہتھوں درد اور کر کی صی پر مصو ہوتے آئے<br />
ہیں۔<br />
منی ک ردعمل مو ہوتے‘ اس کے موڈھی کے دیکھئے گئے<br />
حسن و جمل کی گرہ میں بڑے بڑے یودھ بندھ گئے ہیں اور<br />
انہیں نتئج کی کبھی پرواہ نہیں رہی۔ اس کے نتیجہ میں ہوئی<br />
بربدی سے اگال شکر عبرت نہیں لیت۔ عج حقیقت ہے کہ<br />
بربدی کے نشنت کو دیکھ کر بھی اس راہ کو تیگن مشکل<br />
ترین عمل رہ ہے۔<br />
برائی ی خرابی کو زبن سے برا ی خرا کہن ہی کفی نہیں ہوت<br />
ج تک اسے عمل میں داخل نہیں کی جت۔ بال اجتن وہ برائی<br />
ی خرابی نہیں کہال سکتی۔ ہر مرتشی رشوت کے خالف لمب چوڑا
30<br />
لیکچر دیت نظر ائے گ لیکن اس کی رشوت کے بغیر آنکھ کی<br />
قبض نہیں ٹوٹتی۔<br />
شبنہ کی مں پس کوئہ اور پسے کچے چول رات سوتے وقت<br />
کھتی اور اس کے بد چئے پیتی تھی۔ خیر دن کو بھی کبھی<br />
کبھی ان اشی کو کھ کر لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ عدت بد اس<br />
کے لیے عدت بد نہ تھی۔ شدید عاللت ک شکر ہوئی۔ سسک<br />
سسک کر د دی۔ اس کی عبرت نک موت ک منظر دیکھ کر لوگ<br />
کنپ کنپ گئے اور توبہ توبہ کر اٹھے۔<br />
وہ روکنے پر بھی نہ رکی تھی۔ بریک نظر کی خبر گیری کے<br />
بوجود کوئی نکوئی چور رستہ نکل ہی لیتی۔ اسے مو تھ یہ<br />
شغل اسے رفتہ رفتہ موت کی جن لے ج رہ ہے اس کے<br />
بوجود اس نے اس عت بد سے ہتھ نہ کھنچ بل کہ روکنے<br />
والوں کو وہ اپن دشمن سمجھتی تھی حالں کہ وہ ہی اس کی<br />
جن کے سجن تھے۔ ہسپتل کے خرچے اور لے جنے کی<br />
صوبت اپنی جگہ وہ چہتے تھے کہ شبنہ کی مں جن سے نہ<br />
جئے اور آسودہ زندگی بسر کرے۔ دوا دارو میں ممولی نوعیت<br />
کے تسہل پر بھی وہ بھڑک اٹھتی۔<br />
اس کی کر نک موت کو دیکھ کر ہر کسی ک کنوں کو ہتھ<br />
لگن بنت ہے۔ قیمت دیکھیے اس کی بہو کے سمنے اس کی<br />
موت ہوئی وہ بھی اس عت بد ک شکر ہو گئی۔ ان دنوں
31<br />
شخنؤں کی خک چھن رہی ہے۔ ادویت کی ک کریں گی ج<br />
کہ وہ اس صی پر لٹک رہنے میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔<br />
گھر والے پہرہ دیتے ہیں لیکن کڑی نگرانی میں بھی روزانہ<br />
کسی نکسی طرح داؤ لگ ہی لیتی ہے۔ دیکھو ک موت کو پیری<br />
ہوتی ہے۔
32<br />
لا مف کرے<br />
منسنہ<br />
آدمی دکھ میں الکھ کوشش کرئے‘ ہنسن تو دور کی بت‘ اصی<br />
اور خلص مسکراہٹ سے بھی آوازار ہو جت ہے۔ خوشی ی<br />
کسی ہنسی کی بت میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ جی اور<br />
زبردستی کی ہوتی ہے۔ یہ کییت کسی مس اور ندار سے<br />
مخصوص نہیں‘ بڑے بڑے نڈو خں بھی دکھ درد اور بیمری‘<br />
اگرچہ وہ خود سمجی بیمری ہی کیوں نہ ہوں‘ میں اصی<br />
مسکراہٹ دیکھ نہیں پتے۔ مزے کی بت یہ کہ ان کے ہں<br />
طواف کرنے والے‘ ان کے اپنے ی ان کے کسی کن قری کے<br />
سمنے بھی مسکرانے کی زحمت نہیں اٹھتے۔ وہ بھی یوں منہ<br />
بسورتے نظر آتے ہیں جیسے دکھ کی بھٹی میں پڑے سگ<br />
ہوں۔ گھر پر بھی صح کے دکھ ک تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔<br />
نک واحد ایس بندہ دیکھ ہے جو دکھ درد تکیف اور بیمری<br />
سے بال تر ہو کر ہنست ہے اور مسکرات بھی ہے۔ کوئی اندازہ<br />
نہیں کر پت کہ ان لمحوں میں وہ کسی دکھ درد ی مصیبت میں<br />
ہے۔ کہیں سے مو پڑت کہ وہ فالں پریشنی میں گرفتر ہے۔<br />
ج دیکھو ہنست مسکرات نظر آت ہے۔ اس کی اس ادا کے سب<br />
س اس قری رہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو جئے عمومی لوگوں کی
33<br />
طرح منند سگ بھونکت ی ٹونکت نہیں۔ بھونکن ٹوکن ی چپ<br />
اختیر کرن اس کے کغذوں میں نہیں۔<br />
اس روز پت نہیں اسے کی ہوا تھ کہ خموشی کی بکل سے نکل<br />
ہی نہیں رہ تھ۔ الکھ پوچھ کریدا اس کی چپ ک کوئی سرا ہتھ<br />
نہ لگ۔ اس کی ہوں ہں بھی کسی کی گرہ میں نہ پڑ رہی تھی۔<br />
سرا دن اسی حلت میں گزر گی۔ ش کو پت چال گؤں کی مسجد<br />
کے میں صح نے بالی تھ اور اسے کچھ کہ تھ۔ شنی عید<br />
نمز بھی پڑھنے نہیں جت تھ۔ اس دن عشء کی نمز پڑھنے<br />
چال گی۔ ہ جولی ڈیرے پر بیٹھے شنی ک انتظر کر رہے تھے۔<br />
وہ نکے کی چپ ک راز جنن چہتے تھے۔<br />
شنی ج مسجد سے لوٹ تو س اس کی جن لپکے۔ اس نے<br />
بتی کہ نکے کو مولوی صح نے بالی تھ اور اسے بتی کہ<br />
وہ بہت بڑے گنہ ک مرتک ہوا ہے۔ فوری طور پر توبہ کرئے<br />
اور اپنے کیے ک کرہ ادا کرے۔ یہ بت تو چتے چتے ہوئی<br />
تھی۔ ج شنی بیٹھ تو س نے پوچھ آخر نکے سے ہوا کی<br />
جس کی وجہ سے گنہ گر ٹھہرا۔ اس نے بتی کہ اس سے ہوا<br />
تو برا ہے۔ کسی ک مذا اڑان واقی درست تو نہیں۔ ہ ہنسی<br />
ہنسی میں ایک دوسرے ک مذا اڑاتے رہتے ہیں ہمیں اس سے<br />
پرہیز رکھن چہیے۔
34<br />
او یر آخر ہوا کی جو اس کی بوکی گر گئی۔ کچھ پت بھی تو<br />
چے۔ بکی نے الجھے الجھے لہجے میں کہ<br />
نکے کی بیوی بین نے میں صح سے شکیت لگئی تھی کہ<br />
نک اٹھتے بیٹھتے اس ک مجکھ اڑات ہے۔ میں صح نے اس<br />
کے اس گنہ پر حد لگ دی۔<br />
کی مذا اڑات تھ۔ شبو نے پوچھ<br />
اس کی بیوی ک تکیہ کال تھ لا مف کرے۔ اس روز ج اس<br />
کے منہ سے لا مف کرے نکال تو وہ دوڑا دوڑا اس کے پس<br />
گی اور مذاقیہ انداز میں پوچھنے لگ کہ کی کر بیٹھی ہو جو لا<br />
سے مفیں منگ رہی ہو۔ پہے تو اس نے خود خو بول<br />
بوالرا کی اس کے بد میں صح سے شکیت کر دی۔<br />
توبہ تئ کرتے رہن چہیے اس سے گنہ ک ہوتے ہیں۔ نکے<br />
نے واقی گنہ کی جو توبہ تئ ہوتے بندے کی راہ میں آ گی۔<br />
عمرے نے لقمہ دی<br />
کفی دیر تک س دوست اس مدے پر گت گو کرتے رہے اور<br />
اس نتیجے پر پہنچے کہ نکے نے بہت بڑا گنہ کی ہے۔ اسے<br />
کرہ ادا کرن چہیے۔<br />
وہ دن جئے اور آج ک آئے‘ لوگ ہنسی مذا کی روایت سے<br />
دست بردار ہو گیے ہیں۔ ہنست مسکرات نک چپ کے بدلوں میں
کہیں کھو گی ہے۔ اس کے بد کسی نے اس کے منہ پر کبھی<br />
شوخی کے گال کھتے ہوئے نہیں دیکھے۔<br />
35
36<br />
قد قد پر<br />
منسنہ<br />
وہ بڑا ہی شطر اور چل بز ہے۔ لذت کی راہیں بتت ہے۔ لذت<br />
کے ذائقوں سے آگہ کرت ہے۔ یہ ہی نہیں استوار کرنے میں<br />
بھی مونت کرت ہے۔ بدبخت ج بھی کڑا وقت آن پڑت ہے‘<br />
مونت تو دور کی بت‘ اکثر ڈھونڈے سے نظر نہیں آت۔ اس<br />
وقت تک اسے کوئی دوسرا شکر مل چک ہوت ہے۔ کسی بڑے<br />
ٹسک کی توقع میں شکر کی کٹھن گزار راہوں میں اس کے<br />
گندے انڈے بچے دوڑے چے آتے ہیں۔ مضرو جن لڑات ہے<br />
لیکن کسی موڑ پر اس کی چل نہیں پتی۔<br />
اس نے کرایہ پر مکن حصل کرن تھ۔ ملک مکن کے سمنے<br />
بڑا شریف اور مسکین بن کر آی۔ اس کی شرافت اسے بھ گئی<br />
اور اس نے اسے کرایہ پر اپنے مکن ک بالئی حصہ دے دی۔<br />
ج کرائے کے مکن کی گی میں داخل ہوت نصرف نظریں<br />
نیچی کرکے گزرت بل کہ سر پر پرن بھی رکھ لیت۔ مسجد میں<br />
بجمعت صبح کی نمز ادا کرت۔ ہر کسی سے مسکرا کر اور<br />
عجز و مسکینی کے ستھ مت۔ اس کی شرافت میں موف اداؤں<br />
کے س قئل ہی نہیں گھئل بھی ہو گئے اور اسے عالقے کے<br />
شریف وسنیکوں میں شمر کرنے لگے۔
37<br />
اس روز وہ گھر پر اکیال ہی تھ۔ اس کی بیوی کہیں گئی ہوئی<br />
تھی۔ ملک مکن کی آٹھ نو سل کی بچی اپنے کرایہ دار کے<br />
بچوں کے ستھ کھینے کے لیے آ گئی۔ اس نے شرافت ک جی<br />
لبدہ وہ پرے پھینک اور نصرف اسے اپنی ہوس ک نشنہ بنی<br />
بل کہ اس کی جن بھی لے لی۔ پھر موقع پ کر اسے بہر پھینک<br />
آی۔ لمحتی لذت کے لیے اس نے نصرف زن کی بل کہ قتل ایس<br />
جر بھی کی۔<br />
بڑوں سے اس ک بیر کمن تو سمجھ میں آت ہے لیکن بچوں کے<br />
ستھ دشمنی سمجھ سے بالتر ہے۔ انسن تو انسن جنور کے<br />
بچے بھی پیرے لگتے ہیں۔ بچوں کے ستھ زیدتی ہون ی ان<br />
کی اس طرح سے جن جن‘ افسوس نک ہی نہیں شر نک فل<br />
بھی ہے۔ پر کی کریں وہ انسن کے بچوں کے ستھ بھی روز<br />
اول کی دشمنی کمت ہے۔ اس کے لیے انسن کو ہی مہرہ بنت<br />
ہے‘ چہے وہ بچہ ہو ی بڑا۔ وہ ان لمحوں میں انسن کی رگ<br />
میں اپنے مقصد لذت کے روپ میں اتر دیت ہے۔<br />
عالقے میں اس سے پہے بھی اس قس ک واقہ ہو چک تھ اور<br />
لے دے کرکے ممہ رفع دفع ہو چک تھ۔ لوگ اکثر سوچتے کہ<br />
قتل کون ہے زن کرکے مصو بچی کو کو مر کر پھینک دینے<br />
واال ی اس کے مئی بپ جنہوں نے سکوں کے عوض اسے زن<br />
اور قتل مف کر دی۔
خیر وہ تو اس کے بڑے ک ک تھ اسی لیے قد قد پر اس کی<br />
مدد کرت رہ اور مواقع دستی کرنے میں اپنے حربے استمل<br />
کرت رہ۔ اس کے گندے انڈے بچے متحرک رہے۔ اس کے<br />
برعکس یہ کچھ زیدہ ک ک نہ تھ دوسرا اس سے بڑھ کر<br />
مردود تالش لی ہو گ ورنہ اس کی جن نہ جنے دیت۔<br />
38
39<br />
ایسوں میں<br />
منسنہ<br />
یہ کوئی نئی بت نہیں بل کہ ہمیشہ سے چی آتی ہے کہ مجر<br />
ہل پر نہئے اور صف ستھرے لوگ مجر ٹھہرے ہیں۔ آتے<br />
وقتوں میں ہر اچھ مجرموں کے ن کر دی گی ہے اور ہر برا<br />
اچھوں ک مقدر بن دی گی ہے۔ یہ کبھی دانستہ کہ اپن بندہ ہے‘<br />
کبھی سنی سنئی کے زیر اثر‘ کبھی ممے کی ظہری صورت<br />
دیکھ کر تہیمی کجی بھی برعکس سمجھنے اور جننے ک سب<br />
بنتی رہی ہے۔ اس طرح سچ اور حقیقت کھل نہیں پتے۔ خونی<br />
ت بھی اکثر سچئی کو پس پردہ کر دیت ہے۔ دیکھتے اور<br />
جنتے ہوئے بھی غط‘ غط نہیں لگت۔<br />
ہ س بہن بھئی اور والد صح چھوٹی ک پہ عین غین سے<br />
رشتہ نہیں کرن چہتے تھے۔ اب کی گھر میں حیثیت اور وقت<br />
تھی لیکن وہ بڑے بیٹے کے داؤ میں آ جتے تھے۔ اس کی<br />
دونوں بیویں بےنکحی بال کی چل بز اور شطر تھیں۔ چھوٹی<br />
بیوی‘ جو کفٹین عرف رکھتی تھی‘ چل بزی میں شیطن کی<br />
بھی ننی تھی۔ چھوٹی کے رشتے ک رگڑا جھگڑا چل رہ تھ۔ پہ<br />
عین غین کے اپنے‘ رشتہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ گھر کے<br />
س لوگ جمع تھے، ان کی مہمن داری کی ج رہی تھی لیکن
40<br />
رشتہ دینے کے حوالہ سے‘ ان کی جھولی میں نں ہی ڈالی ج<br />
رہی تھی۔ کفٹین نے کچھ دینے سے بچؤ کے لیے‘ ہمرے بڑے<br />
بھئی کو مشورہ دی کہ ت ج کر ہں کر دو‘ پھر گھر آنے کی<br />
کرو۔<br />
وہ طوفن اور اندھی کی طرح آی اور رشتے کی ہں کرکے چت<br />
بن۔ اس طرح اس نے فسد ک رستہ کھول دی۔ شید چھوٹی ک<br />
دانہ پنی ہی ادھر تھ اس لیے رگڑے جھگڑے کے بوجود رشتہ<br />
ہو گی۔ ہ س کو اس رشتے کے ہو جنے ک سخت دکھ ہوا<br />
لیکن کی ہو سکت تھ کہ تیر کمن سے نکل چک تھ۔<br />
چھوٹی وہں خوش اور سکھی تھی اس لیے ہ نے اس رشتے<br />
کو قبول کر لی تہ پہ عین غین ہمری نظر میں دو نمبری ہی<br />
رہ۔ ہ نے اس پہو پر کبھی غور نہیں کی عورت مرد کو درستی<br />
کی جن ال سکتی ہے۔ یہ رز حالل پر پی رز حرا کو گے<br />
لگ رہی تھی یہ ہی نہیں پہ عین غین کی مون اور مددگر بھی<br />
بن گئی تھی۔<br />
ہ میں سے کسی نے غور ہی نہ کی کہ عورت مرد کو غط سے<br />
درست اور درست سے غط کی طرف لے جنے میں بڑا توان<br />
کردار ادا کر سکتی ہے۔ چوں کہ بہن تھی ہمیں کبھی اس میں<br />
غطی ی خرابی نظر نہ آئی۔<br />
اس نے پہ عین غین کے گھر جتے ہی اس کی مرحو بیوی
41<br />
کے بچوں کو بڑے حیوں حربوں اور چل بزی سے گھر سے<br />
چت کی۔ ان کی تی اور تربیت کی جن توجہ نہ دی۔ بےشک<br />
ان مصوموں پر یہ حد درجہ کی زیدتی تھی۔ ہ میں سے کسی<br />
کو یہ زیدتی نظر نہ آئی اور ہ چھوٹی کو مصو اور ہ درد<br />
عورت سمجھتے رہے۔<br />
میں کوئی سیٹھ تو نہیں لیکن سید پوش ضرور ہوں۔ میری<br />
ازدواجی زندگی خوشگوار نہ تھی۔ جسے وہ بریکی سے نوٹ<br />
کر رہی تھی۔ اس نے میرے لیے اپنے ہتھ ک رشتہ تالش۔ میرے<br />
شدید انکر پر بھی اس نے انہیں ہں کر دی۔ اس کی ہں کے<br />
بوجود میں اڑا رہ تو کہنے لگی میں زبن دے چکی ہوں کی ت<br />
پوری برادری میں میرا نک کٹواؤ گے۔ کی کرت مجھے سولی<br />
چڑھن پڑا۔<br />
پہبی کفٹین تک نے کہہ دی افسوس چپس کی کھرلی کے ستھ<br />
چھوٹی نے بھینس بندھ دی ہے۔ سچی بت ہے‘ اس نے<br />
افسوس اور ہ دردی ک اظہر بھی کی۔ میں اسے پہ عین غین<br />
کی سزش سمجھت رہ لیکن یہ نہ سمجھ سک کہ اس کی تہ میں<br />
میری ہی بہن ک ہتھ ہے۔<br />
یہ تو ایک واقہ ہے اس طرح کے بیسیوں واقے دیکھنے اور<br />
سننے کو مے۔ میں پہ عین غین ہی کو قصور وار سمجھت رہ<br />
اور کبھی یہ غور نہ کی کہ سرا قصور اس ک نہیں۔ حالل پر پی
42<br />
اسے کسی نکسی طرح راہ راست پر ال سکتی تھی لیکن وہ اس<br />
کے گھر ج کر خود شیطن کی ننی بن گئی تھی۔ یہ تو پہبی<br />
کفٹین سے بھی دونمبری میں کئی قد آگے نکل چکی تھی۔<br />
پہبی کفٹین کردار کی اچھی نہ تھی ج کہ یہ رز حرا کے<br />
درآمد میں اپنے خوند کی بنہہ بیی تھی۔ اسے روکنے کی<br />
بجئے النے پر مجبور کرتی تھی۔<br />
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک عرصہ گزر جنے کے بد<br />
حقیقت سے آگہ ہوا۔ پہ عین غین کے غط ہونے میں کوئی<br />
شک نہیں لیکن اس کے سراپ غط ہونے میں خود میری اپنی<br />
بہن ک ہتھ تھ۔ اگر وہ غط کی الف بے سے سدھر کی کوشش<br />
کرتی تو کتن اچھ ہوت لیکن وہ اسے یے تک لے کر گئی۔<br />
یہ تو فقط ایک مثل ہے ورنہ ایسی کئی مثلیں ہوں گی جن میں<br />
پتی کی حرکت پر نظر رہتی ہے اس ک حرکت کنندہ نظر میں<br />
نہیں آ پت۔ زمنہ اور پھر وقت کی انگی حرکت کنندہ پر ہی اٹھی<br />
رہتی ہے۔ ممے ک محرک سمنے نہیں آ پت۔ بس اوقت وہ<br />
بڑے سچ پتر کے طور پر بھی وقت اور زمنے کی کت میں<br />
مندرج ہو جت ہے۔ اس کے لیے محبت اور عزت و احترا کے<br />
جذبے دلوں کو مسخر کیے رکھتے ہیں۔ ج کہ حقیقت تو یہ<br />
ہوتی ہے کہ وہ انسنی نرت کے بھی قبل نہیں ہوت۔ اس ک<br />
زبن پر ن آن بھی زبن کو پید کرنے کے مترادف ہوت ہے۔<br />
چھوٹی ک ایسوں میں شمر کرن بہرطور کسی طرح غط نہیں۔
43<br />
ہں البتہ<br />
شغالنہ<br />
ہ دوستوں میں کوئی مولوی شمل نہیں۔ بڑھپے کے ہ عمر<br />
دوستوں میں بچوں کے دکھ سکھ ی اپنی بیمری موضوع گت<br />
گو رہتی ہے ج کہ جوانی میں شغل ٹھٹھہ اور لڑکیآں موضوع<br />
کال بنتی ہیں۔ یہ بھی کہ ضروری نہیں ہر وقت سنجیدہ بتیں ہی<br />
کی جئیں۔ ہنسی مذا میں واہیت قس کی بت بھی ہو سکتی<br />
ہے بل کہ ہوتی ہی رہتی ہے۔<br />
یہ ات تھ کہ ہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمری مسجد کے<br />
مولوی صح ک ادھر سے گزر ہوا۔ پوچھ کی ہو رہ ہے۔ کچھ<br />
نہیں جن‘ بس یوں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر<br />
کی تھ س کو چپ سی لگ گئی۔ آخر مولوی صح نے ہی<br />
سکوت توڑا اور کہنے لگے یوں ہی بےکر میں وقت نہ ضئع<br />
کی کرو۔ کچھ نکچھ ک کرتے رہ کرو۔ بےکروں پر شیطن جد<br />
گرفت کرت ہے۔ ک کج کرو گے تو مصروف رہو گے اور غط<br />
سط نہیں سوچو گے۔<br />
ان کی بت سولہ آنے درست تھی لہذا س نے ان کی بت پر<br />
تصدی کی مہر ثبت کر دی اور آئندہ سے بےکر نہ بیٹھنے ک<br />
وعدہ کی۔
44<br />
عیدا ہ میں تھوڑا چنچل شرارتی اور گل بتی ہے۔ کہنے لگ:<br />
مولوی صح‘ مولوی حضرات حوہ کیوں پسند کرتے ہیں۔<br />
جواب مولوی صح کہنے لگے: آج کل مولوی ک حوہ کھتے<br />
ہیں۔ یہ پرانے وقتوں کے مولوی صحبن کی خوراک تھی۔<br />
بکرو نے کہ: ہں جی آپ ک کہن درست ہے۔ آج کل تو مولو ی<br />
صحبن آوارہ ککڑ پسند کرتے ہیں۔<br />
یہ کھی گستخی تھی۔ س ڈر گئے کہ کل جمہ شریف ہے<br />
سمجھو یہ جمہ ان پر ہی لگے گ۔ خالف توقع مولو ی صح<br />
بھی شغل میں آ گئے اور فرمنے لگے: ہں ت درست کہتے ہو<br />
لیکن بنگیں بھی تو مولوی ہی دیتے ہیں۔<br />
س نے کہ جی ہں جی ہں آپ ک کہن درست ہے۔<br />
عبدو نے دوبرہ سے گرہ لگئی‘ گے میں چکنئی ہو تو ہی<br />
خوش الحنی ممکن ہو سکے گی۔<br />
مولوی صح نے کچھ نہ کہ بل کہ ہنس دیے اور اٹھ کر چے<br />
گئے ہں البتہ ہ دوستوں پر یہ ضرور کھول گیے کہ مولوی<br />
صحبن بھی حس ظرافت رکھتے ہیں۔
45<br />
چلیس برس ہونے<br />
منسنہ<br />
بب جی کھن تنول فرم رہے تھے کہ ان کی دو ڈھئی سل کی<br />
بچی بر بر آ کر نصرف ڈسٹر کر دیتی بل کہ اپنے مٹی مے<br />
ہتھ چپتوں کو لگتی۔ وہ مسکرا دیتے اور کھن جری رکھتے۔<br />
مجل ہے جو ان کے متھے پر سوٹ پڑتی۔ ان کی بیگ اسے<br />
اٹھ کر لے جتی اور وہ دوبرہ سے آ جتی۔ ایک بر انہوں نے<br />
ڈانٹ اور ایک ہکی سی چپت بھی رکھ دی۔ بب صح خ<br />
ہوئے کہ بھئی مصو ہے اسے کی پت۔<br />
بڑے نز نخرے سے اس کی پرورش ہوئی۔ دینی تی کے<br />
ستھ مدرسے کی تی سے بھی اسے اراستہ کی گی، دھو سے<br />
اس کی شدی کی۔ اپنی بست سے بڑھ کر جہیز میں سمن دی۔<br />
دعؤں کے سیہ میں اس کی رخصتی کی۔ لا کے احسن مند<br />
ہوئے کہ اس نے انہیں اس فرض سے سرخرو کی۔<br />
اپنے دونوں بچوں کے ستھ نصرت عرف نشو مئی بپ کے ہں<br />
آئی ہوئی تھی۔ اپنی مں سے بتیں کرنے کے ستھ ستھ اپنے<br />
دونوں بچوں کو کٹ کٹ کر آ کھال رہی تھی۔ بب جی چرپئی<br />
پر لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی بیٹی نشو سے<br />
کہنے لگے: ایک آ کٹ کر مجھے بھی دین۔
46<br />
ٹوکری میں آ کفی پڑے ہوئے تھے۔ آ کٹ کر دینے کی بجئے<br />
کہنے لگی: منڈی آرڈر بھجوای ہوا ہے۔<br />
بب جی مسکرائے اور کہنے لگے: بیٹ اوالد ہر رشتے یہں تک<br />
کہ مں بپ سے بھی بڑھ کر پیری ہوتی ہے۔ جن کی بیٹیں بیہ<br />
کر الن ان سے اچھ اور پیر بھرا سوک کرن۔ انہیں بھی اپنی<br />
بچیں اسے طرح پیری ہوں گی جس طرح تمہیں اپنے بیٹوں<br />
سے پیر ہے۔<br />
اس بت کو چلیس برس ہونے کے قری ہیں۔ اس وقت تو بب<br />
جی کی بت سمجھ میں نہ آ سکی تھی ا ج کہ دونوں کی<br />
بیویں آ چکی ہے۔ ان میں ایک سگی بھتجی ہے۔ اس نے ان ک<br />
جین حرا کی ہوا ہے۔ ج ان کے خوند ان کے پس بیٹھتے ہیں<br />
ی اپنی بیویوں کے لیے کوئی چیز التے ہیں تو فورا شور مچ<br />
دیتی ہے۔<br />
ہئے میں مر گئی میرا دل بیٹھ رہ ہے۔ ہئے میرا سنس رک<br />
گی۔<br />
وہ اسی طرح اپنے کمرے میں قد رکھنے سے پہے ہی اس<br />
چیز سمیت مں کے حضور حضر ہو جتے ہیں۔ وہ چیز ان کی<br />
بیویوں کے نصی میں نہ ہوتی حالں کہ وہ اپنی بیویوں کے<br />
لیے الئے ہوتے۔ اس کی بیٹیں سسرال میں ک اس کے پس
47<br />
بچوں سمیت زیدہ رہتیں۔ وہ ہی چیزیں وہ اور ان کے بچے<br />
ڈکرتے۔<br />
چھوٹ اپنی بیو ی‘ جو نشو کی بھتجی بھی تھی ک تھوڑا بہت<br />
خیل رکھت تھ۔ وہ بھی اسے نہ بھی۔ اس نے اپنی دونوں<br />
بیٹیوں سے صالح مشورہ کرکے ڈیوری سے پہے ہی اس پر<br />
الزا رکھ دی اور اسے چت کی ۔ وہ سچی تھی کہ بچے کی<br />
پیدائش کے بد اس کے بیٹے نے کی طور پر بیوی اور بچے ک<br />
ہو رہن تھ۔ صف ظہر ہے‘ دوسرے رشتے ایک طرف‘ اوالد<br />
مں بپ سے بھی پیری ہوتی ہے۔ اسے بھئی کی عزت اور اس<br />
کے اپنے بیٹے کے گھر کے بربد ہونے ک رائی بھر مالل نہ<br />
تھ۔ اس سے بڑھ کر کھیڈ اس نے اپنے خوند کی مرحو بیو ی<br />
کے بچوں کو گھر بدر کرنے کے لیے رچئی تھی۔<br />
آج چنے پھرنے سے مذور ہے لیکن اس نے اپن چال نہیں<br />
بدال۔ لا کی لا ہی جنت ہے کہ اس نے شیطن کو اتنی لمبی<br />
عمر اور کھی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔ خود لنت کی جیت<br />
ہے اوروں کی زندگی کو بھی لنتی بن کر دنی میں شر اور فسد<br />
کو ع کر دیت ہے۔ بڑے بزرگوں ک کہ محض قصہ کہنی ہو کر<br />
رہ جت ہے۔
48<br />
کی تمہیں مو نہیں<br />
شغالنہ<br />
ش کو ک کج سے فراغت کے بد دونوں دوست قریبی پرک<br />
میں چے جتے۔ چہل قدمی کے ستھ ستھ تڑا تڑی ک شغل<br />
بھی جری و سری رہت۔<br />
عالقے کی یہ واحد تریح گہ تھی جہں ش کو شورےف اور<br />
عمو بھی گھر والوں کے ستھ تزہ اور صف شف ہوا خوری<br />
کے لیے چے آتے تھے۔ ہوا خوری کے ستھ ستھ پہونڈی ک<br />
عمل بھی زور و شور سے جری رہت۔ یہ ممہ یک طرفہ نہ<br />
تھ۔ صنف نزک ادائیں اور صنف غیر نزک مردانہ جواہر ک<br />
مظہرہ کرتے۔ مسکنوں اور اشروں کی زبن میں بہت کچھ کہ<br />
سن جت۔<br />
کچھ جوان اور جواننیں ک آن ہی تڑا تڑی کے لیے ہوت تھ لہذا<br />
ان کے ممے کو ان س سے الگ رکھ ج سکت ہے۔ ایک آدھ<br />
اڑپھس بھی ہو رہتی۔ پہے سے پھسوں کی انجوائےمنٹ<br />
دوسروں سے قطی الگ تر ہوتی۔<br />
بوڑھے اپنی بیمری ک رون روتے۔ دواؤں اور ٹسٹوں پر گت<br />
گو کرتے۔
49<br />
جگہ جگہ بیبیوں کے چغیوں اور بخیوں پر مشتمل مشہرے ہو<br />
رہے ہوتے۔ آنسو اور بےمنی و بمنی جی اور نی اصی<br />
لظوں کے رونے دیکھنے کو متے۔<br />
ایک دن ان دونوں میں سے ایک دوست ک دوست بھی چہل<br />
قدمی کے لیے ستھ آی ہوا تھ۔ وہ دونوں حس روٹین چہل<br />
قدمی کے ستھ ستھ تنک جھنکی میں مصروف تھے۔ وہ جوان<br />
حوروں کے حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن یہ مہمن<br />
دوست بوڑھی اور آدھ کھڑھ بیبیوں ک حدود اربہ نپ رہے<br />
تھے۔<br />
حمید نے توقیر سے مجرہ پوچھ کہ تمہرا دوست بھی عجی<br />
ہے۔ حسن کی شہزادیوں کو چھوڑ کر پرانی بوسیدہ اور بوریوں<br />
کو ہی کیوں اتنی دل چسپی اور پیر سے دیکھ رہ ہے۔ وہ<br />
کھکھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگ: کی تمہیں مو نہیں کہ یہ<br />
کبڑہ ہے۔ کبڑ میں جو جوہروگوہر اسے نظر آتے ہیں ہمیں نظر<br />
نہیں آتے۔<br />
حمید نے اپنے دوست تنویر سے کہ یر کسی دن اس کے پس<br />
ج کر اس فیڈ ک بھی نلج حصل کرتے ہیں۔ وہ پھر ہنس اور<br />
کہنے لگ: چھوڑو اپنی اپنی فیڈ ہے ہر کسی کو اپنی ہی فیڈ<br />
سے وابستہ رہن چہیے۔ یہ ہی درست اور بہتر ہوت ہے۔
50<br />
بت تو کوئی بڑی نہ تھی<br />
منسنہ<br />
میر ی کی‘ ہر کسی کی آنکھیں بینئی موجود ہونے کی صورت<br />
میں لوگوں کو اور زندگی کے بےشمر منظر دیکھتی ہیں۔ خو<br />
صورت منظر اور زننہ و مردانہ چہرے طبیت پر اچھے تثرات<br />
چھوڑتے ہیں۔ زننہ چہرے اور منس جثے قدرے بہتر ی لٹ<br />
کرانے والے ہوں تو کی ہی بت ہے۔ طبیت بالتکف اور خواہ<br />
مخواہ مئل و قئل اور مچل مچل جتی ہے۔ یہ ہی نہیں اکثر<br />
اوقت ان میں حوروں اور پریوں کے جوے نمیں ہو جتے<br />
ہیں۔ مط بری کے بد کچھ ید نہیں رہت کہ وہ کون تھیں۔<br />
یدداشت کے ممہ میں شید ان ک بھی یہ ہی حل رہ ہو گ۔<br />
یہ ہی آنکھیں طبیت اور مزاج سے میل نہ کھتے منظر کو<br />
خرا اور بےکر قرار دے دیتی ہیں۔ اس طرح بوڑھے آدھ<br />
کھڑے بےڈھبے ی بےلٹے چہروں پر نپسندیدگی کی مہر ثبت<br />
کر دیتی ہیں۔<br />
انسن کی آنکھیں س کو اور س کچھ دیکھتی اور دیکھ سکتی<br />
ہیں لیکن یہ کتنی عجی حقیقت ہے خود کو نہیں دیکھ سکتیں۔<br />
جس چہرے پر آویزاں ہوتی ہیں اس کو دیکھنے سے عری<br />
ہوتی ہیں۔ اپنی ہی پشت کو دیکھنے سے مذور رہتی ہ یں۔ جس
51<br />
جس ک حصہ ہوتی ہیں اس جس کے اندر کی کچھ ہے اور کیس<br />
ہے ان کی بصرت کی رسئی اس تک ممکن نہیں۔ جو آنکھیں<br />
خود کو نہیں دیکھ سکتیں اور مختف حالت میں اپنے چہرے<br />
کے اتر چڑھ دیکھنے سے عری ہیں انہیں کسی دوسرے میں<br />
موجود خرابیوں پر انگی رکھنے ک کی ح بنت ہے۔<br />
یہ کوئی چلیس پچس سل پیے کی بت ہے میرے دوست<br />
شریف نے اپنے کسی منے والے کے ک کے سسہ میں اس<br />
کے ستھ مجھے الہور بھیج۔ اس روز جمہ تھ۔ جمے ک ٹئ<br />
بھی ہو رہ تھ لیکن ہ اپنے ک میں مصروف تھے اور ستھ<br />
میں بتیں بھی کیے جتے تھے۔<br />
وہ کہنے لگ: دیکھو جی‘ لوگ مذہ سے کتنے دور ہو گئے<br />
ہیں۔ آج جمہ ہے لیکن بالتردد اپنے اپنے کموں میں مصروف<br />
ہیں کوئی مسجد ک رخ نہیں کر رہ۔<br />
میں نے کہ: یر ت کہتے تو ٹھیک ہو۔ ہ مذہ سے دور ہو<br />
گئے ہیں‘ مذہ سے دوری ہی ہمیں ذلیل و رسوا کر رہی ہے۔ ت<br />
بھی تو مسجد میں جمہ پڑھنے نہیں گئے۔<br />
میرے جوا پر وہ خ ہوگی اور کہنے لگ کہ آپ پرسنل ہو گئے<br />
ہیں۔ میں تو لوگوں کی بت کر رہ تھ۔<br />
اس نے مجھ سے اپن رستہ جدا اختیر کر لی۔ میں اس کے ک<br />
آی تھ اور ک بھی کروا دی تھ۔ صف ظہر ہے اس کے ک آی
52<br />
تھ آنے جنے ک کرایہ اسی نے بھرن تھ۔ آتی بر تو اس نے<br />
بھرا لیکن ا جتی بر بھی اسی نے ادا کرن تھ۔ میں نے رستہ<br />
صف کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ من۔ اس ک ک نکل<br />
گی تھ اور ا اسے میری ضرورت نہ تھی۔ نچر مجھے اپن<br />
کرایہ بھر کر واپس آن پڑا۔ بت تو کوئی بڑی نہ تھی کہ اس نے<br />
جسے بتنگڑ بن دی۔ شید وہ بھی کرایہ بچنے کے لیے یہ نٹک<br />
رچ گی تھ۔ اوپر سے شریف سے بہت کچھ الٹ سیدھ کہہ دی۔<br />
وہ کئی دن تک مجھ سے نہ بوال۔
53