12.07.2015 Views

کچھ اور ادب دریچے

کچھ اور ادب دریچے مقصود حسنی Kuch Aur Adab darichay Maqsood Hasni Kasur...Pakistan maqsood5@mail2world.com

کچھ اور ادب دریچے

مقصود حسنی

Kuch Aur Adab darichay

Maqsood Hasni

Kasur...Pakistan
maqsood5@mail2world.com

SHOW MORE
SHOW LESS

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

مندرجات<br />

کیا اردو مر رہی ہے<br />

ایک غیر اردو'‏ اردو نواز کی تالش<br />

کالم قمر <strong>اور</strong> ریشہ حنا کے نثری حصے کا تعارفی<br />

مطالعہ<br />

فن تدوین'‏ مباحث <strong>اور</strong> مسائل ۔۔۔۔۔۔ تعارفی جائزہ<br />

انسان <strong>اور</strong> انسانی رو یے<br />

ایک قدیم اردو شاعر کے کالم کا تعارفی و لسانی<br />

جائزہ<br />

مثنوی ماسٹر نرائن داس'‏ ایک <strong>ادب</strong>ی جائزہ<br />

باراں ماہ غالم حضور شاہ<br />

آشا پربھات'‏ مسکاتے'‏ سلگتے <strong>اور</strong> بلکتے احساسات<br />

کی شاعر<br />

کیا اردو مر رہی<br />

ہے


کوئی بھی زبان مرتی نہیں'‏ زندہ رہتی ہے۔ اس کی دو<br />

صورتیں ہ یں۔<br />

کسی زبان کا ایک شخص بھی زندہ ہے'‏ تو جان<br />

رکھیے'‏ وہ زبان زندہ ہے۔ کوئی شخص'‏ کسی دوسری<br />

زبان کے عالقہ میں'‏ پچاس برس جو نصف صدی<br />

ہوتے ہیں'‏ رہ لے'‏ وہ شعوری <strong>اور</strong> الشعوری سطعوں<br />

پر'‏ وہاں کی زبان کا'‏ نہ ہو سکے گا۔ حاالں کہ پورا دن<br />

اس کا واسطہ'‏ اس زبان کے لوگوں سے رہے گا۔ وہاں<br />

کی کسی خاتون سے شادی ہو جانے کی صورت میں<br />

بھی'‏ ان کا نہ ہو سکے گا۔ بچے اس سے پیار کرنے<br />

کے باوجود'‏ اس کی زبان کے نہ ہو سکیں گے ۔<br />

وہ کسی زبان کا تنہا آدمی'‏ اپنی ہی زبان میں سوچے<br />

گا۔ اپنی ہی زبان میں'‏ ہر نوع کی یادوں سے رشتہ<br />

استوار رکھے گا۔ اب وہ بولے'‏ لکھے <strong>اور</strong> پڑھے گا<br />

اس زبان میں'‏ لیکن سوچے <strong>اور</strong> سمجھے گا'‏ اپنی<br />

زبان میں۔ اس کا سوچ اس تک ہی محدود نہ رہے گا'‏<br />

ان حاالت میں'‏ وہ اپنی زبان کے لوگوں کا نمائندہ ہو<br />

گا.‏ اس کا سوچ'‏ وہاں کی زبان پر'‏ فکری <strong>اور</strong> لسانی<br />

حوالہ سے'‏ اثر انداز ہو گا۔ وہ وہاں تنہا نہیں رہ رہا ہو<br />

گا'‏ جو اس کا سوچ'‏ اس تک محدود رہے گا۔ اس کا


سارا دن'‏ بیسیوں طبقوں کے لوگوں میں گزرے گا۔ ان<br />

سے گفتگو <strong>اور</strong> لین دین رہے گا۔ اس کا سوچ'‏ جو اس<br />

کی زبان میں ہو گا'‏ بالواسطہ سہی'‏ اس زبان کے<br />

لوگوں پر'‏ فکری <strong>اور</strong> لسانی حوالہ سے اثر انداز ہوگا۔<br />

لکھنے کی صورت میں'‏ بات'‏ سونے پر سہاگے کے<br />

مترادف ہو گ ی۔<br />

اس شخص کے مر جانےکے بعد'‏ اس کا سوچ'‏ اس<br />

سماج <strong>اور</strong>اس سماج کی زبان میں'‏ باطور بازگشت زندہ<br />

رہے گا۔ ب<strong>اور</strong> رہنا چاہیے'‏ ہر زبان کا'‏ اپنا ذاتی کلچر<br />

ہوتا ہے وہ کسی ناکسی حوالہ سے برقرار رہتا ہے۔<br />

یونانی'‏ ایرانی'‏ پرتگالی'‏ ترکی'‏ انگریز وغیرہ چلے<br />

گیے۔ امریکی انگریز کے عالوہ سب کی علم داری<br />

بھی ختم ہو گئی۔ اس کے باوجود ان زبانوں کے الفاظ<br />

آج بھی اس زبان میں مستعمل ہیں۔ مثال<br />

آخر عرب ی<br />

دیسی صورت آخر آنا بھی مستعمل ہے<br />

اسامی عرب ی<br />

واحد مستعمل ہے<br />

آباد فارس ی<br />

آبرو فارس ی


مرکب عزت آبرو<br />

آواز ترک ی<br />

مرکب اونچی آواز'‏ بلند آواز'‏ با آواز بلند<br />

باجی ترک ی<br />

مرکب باجی جان<br />

جان عربی'‏ فارس ی<br />

جان پنجابی میں احترام کا الحقہ'‏ اس کی روح میں<br />

فارسی مفہوم موجود ہے ۔<br />

جاپانی میں مترادف سان ہے ۔<br />

مرکب باجی جان<br />

ایلچی ترک ی<br />

مرکب شاہ کا ایلچ ی<br />

اسرائیل عبران ی<br />

انجیل عبران ی<br />

اسوخودوس یونان ی<br />

مرکب جوارش اسوخودوس<br />

طلسم یونان ی<br />

مرکب طلسم ہوشربا<br />

انگریزی کے بےشمار لفظ اس زبان میں مستعمل ہ یں۔<br />

ان زبانوں سے متعلق لوگ کب کے جا چکے ہیں لیکن<br />

ان کی زبان کے لفظ یہاں کی زبانوں میں مستعمل ہ یں۔


یکئ<br />

<strong>کچھ</strong> لفظوں کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ اردو میں<br />

مختلف زبانوں کے لفظ دیکھ کر'‏ اسے مختلف زبانوں<br />

کے لوگوں کے ملنے کو'‏ وجہءتشکیل قرار دیا گیا۔<br />

اردو مختلف زبانوں کے لوگوں کے ملنے سے وجود<br />

میں نہیں آئی <strong>اور</strong> ناہی اس طور سے'‏ زبانیں وجود<br />

حاصل کرتی ہیں۔ اردو تو آل ہند کی زبان رہی ہے۔ اس<br />

کا حلقہ'‏ پورا برصغیر رہا ہے۔ اسے کئی نام <strong>اور</strong> رسم<br />

الخط ملتے آئے ہیں۔ غالب کے ہاں اس کا نام ریختہ<br />

ہے.....اظہار دمحمی'‏ منظور دمحمی۔۔۔۔ فقیر فضل حق تاجر<br />

کتب ابن حاجی مولوی عالؤالدین مرحوم'‏ ساکن پتوکی<br />

نوآباد ضلع الہور'‏ جب پتوکی بنا'‏ اس وقت شائع ہوئی۔<br />

اس کا تعلق انگریز عہد ہی سے ہے <strong>اور</strong> یہ یقینا غالب<br />

کے بعد کی بات ہے.‏ اس مختصر سی شعری کتاب کے<br />

صفحہ گیارہ پر'‏ موجود کالم کو ریختہ کہا گیا ہے۔ گویا<br />

یہ نام'‏ تاریخ کے کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے۔<br />

ریختہ کے عالوہ بھی'‏ نام ریکارڈ میں ملتے ہ یں۔<br />

ویدوں میں'‏ اس زبان کے لفظ موجود ہیں۔ بہت سے<br />

آثار قدیمہ برباد ہو گیے یا کر دیے گیے'‏ جو محفوظ<br />

رہے'‏ ان میں سے جو کتبے ملے'‏ ان کا رسم الخط


پڑھا نہیں جا سکا۔ یہ تو بڑی پرانی بات ہے'‏ اردو کا<br />

رومن رسم الخط صرف انگریزی جاننے والوں کے<br />

لیے'‏ کارآمد ہے'‏ دوسرے اسے پڑھ نہیں سکتے۔ یہ<br />

ہی صورت دیوناگری والوں کے لیے اردو'‏ جب کہ<br />

اردو والوں کے لیے دیوناگری کی ہے۔ آج یہ تین رسم<br />

الخط رکھنے والی زبان ہے۔ کیسے مر جائے گی۔ یہ<br />

ہزاروں سال سے زندہ ہے'‏ <strong>اور</strong> زندہ رہے گ ی۔<br />

ان شاءهللا<br />

اردو رسم الخط سے وابستہ یہ قدیمی زبان'‏ اپنا وجود<br />

مستحکم کر چکی ہے۔ میں بات تحریری صورت کی کر<br />

رہا ہوں۔ بولے جانے کے حوالہ سے بات اس سے<br />

الگ تر ہے۔ دنیا کا ایسا کون سا عالقہ ہے'‏ جہاں یہ<br />

بولی <strong>اور</strong> سمجھی نہیں جاتی۔ کنیڈا'‏ امریکہ یہاں تک<br />

کہ برطانیہ میں اس زبان کو بولنے <strong>اور</strong> سمجھنے<br />

والے'‏ بلکہ شعر و نثر لکھنے <strong>اور</strong> تحقیقی و تنقیدی<br />

کام کرنے والے'‏ میری بات کی تصدیق کریں گے ۔<br />

مکرمی<br />

حسنی صاحب:‏<br />

سالم مسنون<br />

آپ کا مضمون نہایت دلچسپ <strong>اور</strong> علم افروز ہے۔<br />

اردو


کے ہر دوست کے دل میں اس کو پڑھ کر اردو کے<br />

بارے میں سوچنے <strong>اور</strong> سمجھنے <strong>اور</strong> کام کرنے کا<br />

جذبہ بلند ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اہل<br />

اردو ایک عجیب وغریب عشق میں مبتال ہو کر رہ<br />

گئے ہیں <strong>اور</strong> وہ ہے غزل گوئی کا عشق۔ اردومحفلوں<br />

کا ذکر کیا کریں جہاں بھی جائیے صرف غزلگوئی پر<br />

لوگ جان دئے دے رہے ہیں <strong>اور</strong> لطف کی بات یہ ہے<br />

کہ یہ غزل نہ صرف بلند معیار کی نہیں ہے<br />

ماشاهللا(‏ بلکہ نری تک بندی کے سوا <strong>اور</strong> <strong>کچھ</strong> بھی<br />

نہیں ہے۔ کوئی رسالہ اٹھا کردیکھ لیں،‏ فیس بک پر<br />

چلے جائیں،‏ غزلوں کے شائع ہونے والے مجموعے<br />

دیکھ لیجئے،ہر جگہ آپ کو ایک ہی صورت نظر آئے<br />

گی۔ اردو انجمن میں بھی نظم،‏ افسانہ،‏ مقاالت وغیرہ<br />

سب کے لئے مناسب ابواب قائم کئے گئے ہیں <strong>اور</strong><br />

باربار میں اہل انجمن سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ<br />

نثر نگاری کی جانب توجہ دیں لیکن ہر بار میری<br />

گزارش صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ<br />

لوگ آپ کے یا کسی <strong>اور</strong> کے یہاں لگائے ہوئے<br />

نثرپاروں کو پڑھتے تک نہیں ہیں <strong>اور</strong> اگر پڑھتے ہیں<br />

تو <strong>کچھ</strong> لکھتے نہیں ہ یں۔<br />

( الا


یعن<br />

میں آپ سے متفق ہوں کہ اردو مرے گی نہیں البتہ<br />

ایک تو وہ کمزورہوجائے گی ‏)بلکہ ہو رہی ہے(‏ <strong>اور</strong><br />

دوسرے دنیا کی زبانوں میں اس کوجو مقام ملنا<br />

چاہئے وہ اہل اردو کی سہل انگاری <strong>اور</strong> غیرذمہ دارانہ<br />

روش سے نہیں مل سکے گا۔ ہندوستان کو کہہ لیجئے<br />

کہ وہاں کی حکومت <strong>اور</strong> عوام سیاست <strong>اور</strong> تعصب کی<br />

بنا پر اردو کے خالف ہیں ‏)ویسے شاید سب کو یہ<br />

معلوم ہو کرحیرت ہوگی کہ دو ہندوستانی ریاستوں<br />

ی صوبوں میں اردو کو ہندی کے ساتھ دوسری<br />

سرکاری زبان مان لیا گیا ہے <strong>اور</strong> تقریبا ہر ریاست<br />

سے اردو کا ایک رسالہ سرکاری سرپرستی میں شائع<br />

ہوتا ہے!(‏ لیکن پاکستان کو دیکھ لیں جہاں اردو قومی<br />

زبان کہالتی ہے لیکن سرکاری زبان انگریزی ہے۔<br />

سبحان هللا منافقت ہو تو ایسی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ<br />

وہاں جس قسم کی زبان لکھی <strong>اور</strong> بولی جارہی ہے وہ<br />

اردو تو نہیں ہے البتہ اردو<strong>اور</strong> انگریزی کی کھچڑی<br />

ضرور ہے۔ پڑھ کا افسوس ہوتا ہے لیکن <strong>کچھ</strong> کیا نہیں<br />

جا سکتا ۔<br />

میرے نزدیک اردو کے زندہ رہنے میں دو اسباب بہت<br />

معاون ہیں <strong>اور</strong> رہیں گے۔ایک تو ہندوستانی فلمیں جن<br />

کو سرکاری طور پر ہندی کہا جاتا ہے لیکن ان کی


زبان سراسر عام <strong>اور</strong> آسان ‏)<strong>اور</strong> بعض اوقات <strong>ادب</strong>ی(‏<br />

اردو ہوتی ہے۔ اگر ہندی میں فلمیں بنائی جائیں تو<br />

ٹھپ ہو جائیں۔ اسی طرح ہندوستان کے ہندی<br />

اخبارجس کثرت سے اردو <strong>اور</strong> فارسی کے الفاظ<br />

استعمال کر رہے ہیں وہ حیرت ناک ہے۔ اردو کے زندہ<br />

رہنے کا دوسرا سبب غزل کی مقبولیت ہے۔ ہندوستان<br />

میں غزل اردو کے عالوہ ہندی،‏ گجراتی،‏ بنگالی،‏<br />

تیلگو،‏ مراٹھی،‏ پنجابی،‏ اڑیا وغیرہ زبانوں میں لکھی<br />

جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگالی کے عالوہ<br />

کسی <strong>اور</strong> زبان میں شاعری اتنی ترقی یافتہ <strong>اور</strong> ہر دل<br />

عزیز نہیں ہے۔ غزل سے کم سے کم یہ فائدہ تو<br />

ضرور ہوا ہے ۔<br />

زبانیں وقت کے ساتھ ہمیشہ بدلتی ہیں۔ مقامی اثرات<br />

سے بھی یہ بچ نہیں سکتی ہیں <strong>اور</strong> عالقائی زبانیں<br />

بھی ان پر اثر کرتی ہیں ۔اس میں کوئی برائی نہیں<br />

ہے۔ اس عمل سے زبان ترقی ہی کر سکتی ہے<br />

بشرطیکہ اس میں دوراندیشی کو مدنظر رکھا جائے۔<br />

آپ کے مضمون کا دلی شکریہ۔ هللا آپ کو سالمت<br />

رکھے ۔


سرور عالم راز<br />

bohat hi mohtaram janab raz sahib<br />

aap mairi na'cheez tehriroon ko<br />

tovajo se parhtay hain is ke liay<br />

ehsan'mand hoon. Allah aap ko<br />

salamat rakhe. mein ne idhar odhar<br />

yahhi daikha hai very nice, bohat<br />

khoob. itna acha likhnay par daad<br />

qabool farmaei. is qisam ka jawabi<br />

tabsra hota hai. is noeat ke tabsaray<br />

se koee faeda nahain hota. munfi ya<br />

mosbat tehreer par baat to honi<br />

chahiay ta'kah mazeed ke darwazay<br />

khul sakain. warna is qisman ki daad<br />

ka koee faeda nahain hota. daad lay<br />

kar kya karna hota hai baat ko agay<br />

bharna chahiay. asal zarorat yah hi<br />

hai. maire liay aap ka likha hi kafi<br />

hota hai. dil khool kar baat to kartay


یات<br />

hain. maza aa jata hai.<br />

achi baat hai, ahbaab ghazal hi<br />

likhain, laikin fikr ko aaj ki shahadat<br />

ke sath sath zoban ko bhi kuch<br />

dastyaab hotay rehna chahiay.<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/i<br />

ndex.php?topic=9874.0<br />

ایک غیر اردو'‏<br />

اردو نواز کی<br />

تال ش<br />

زبان کوئی بھی ہو'‏ اس سے تعلق رشتہ استوار ہونا<br />

برا نہیں۔ اظہار کے لیے'‏ کسی بھی زبان کا استعمال<br />

میں النا'‏ عیب نہیں۔ اس کے لیے کسی زبان'‏ خصوصا<br />

اپنی زبان میں'‏ نقائص ہی نقائص دیکھائی دینا'‏ اچھی<br />

<strong>اور</strong> صحت مند بات نہیں۔ جب آپ کسی زبان کی وسعت<br />

<strong>اور</strong> اظہاری صالحیت سے آگاہ نہیں ہیں'‏ تو اچھی یا<br />

بری رائے دینے کا'‏ آپ کو حق حاصل نہیں۔ دوسری<br />

بات یہ کہ'‏ زبانوں کا لسانی <strong>اور</strong> اظہاری موازناتی<br />

مطالعہ'‏ ابھی تک ہوا ہی نہیں'‏ تو کسی قسم کی رائے<br />

دینے کا جواز ہی نہیں اٹھتا ۔


<strong>ادب</strong>ی ذخیرے کے حوالہ سے'‏ جرمن'‏ فرانسیسی'‏ چینی'‏<br />

جاپانی یا پھر روسی وغیرہ کب پیچھے ہیں۔ پہلے<br />

موازناتی مطالعہ ہونا چاہیے۔ نتائج کی حصولی کے بعد<br />

ہی'‏ کسی زبان کو'‏ زبانوں کی ماسی بنانا'‏ مبنی بر<br />

انصاف ہوکا ۔<br />

اردو'‏ نام کے حوالہ سے کل پرسوں کی زبان ہے۔ ذرا<br />

اس کے اندر جا کر دیکھیے سورگ لوک کیا'‏ اندر<br />

لوک'‏ برہما لوک ہی نہیں'‏ یم لوک بھی اپنے کامل<br />

جوبن کے ساتھ دکھائی دے گا ۔<br />

مجنوں کا کوئی کی ا حال پوچھے<br />

ہر گھر صحرا کا نقشا ہے<br />

..........<br />

چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لی کن<br />

جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھ ی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائت یں<br />

ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گ یے<br />

..........


اردو کہہ لیں ہندی'‏ ہندوستانی'‏ ہندوی کہہ لیں'‏ ریختہ<br />

نام دے دیں'‏ آل ہند کی شروع سے زبان رہی ہے۔ یہ<br />

کسی ناکسی حوالہ سے'‏ پورے برصغیر کے لوگوں<br />

کے استعمال میں رہی ہے۔ اس کے رسم الخط بدلتے<br />

آئے ہیں۔ اس کے ہر قسم کے تحریری ریکارڈ میں ہر<br />

زبان بولنے والوں کا حصہ رہا ہے۔ اسے سمجھنے<br />

کی سکل رکھنے والوں نے بھی'‏ اسے نظر انداز نہیں<br />

کیا۔ وہ بھی باقدر ضرورت'‏ لطف لیتے آئے ہیں۔ بعض<br />

معامالت میں متاثر بھی ہوئے ہیں۔ شعر و <strong>ادب</strong> کا<br />

ذخیرہ دیکھ لیں'‏ ہر زبان بولنے والے نے'‏ اپنی مادری<br />

زبان کو چھوڑ کر'‏ اپنا حصہ ڈاال ہے۔ یقینا یہ بہت بڑی<br />

بات ہے۔ اس سے بڑی بات ایک <strong>اور</strong> بھی ہے'‏ برصغیر<br />

سے باہر کے لوگ بھی'‏ اس میں اپنا حصہ ڈالتے آئے<br />

ہیں۔ اس زبان کے بارے میں'‏ اس قسم کی رائے<br />

رکھتے آئے ہ یں۔<br />

اس زبان کی سحر آفرینی'‏ شریں بی یان<br />

اندوزی نے گرویدہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔<br />

ریشہءحنا ص<br />

4<br />

<strong>اور</strong> لطف


یہ الفاظ ایک غیر برصغیری کے ہیں۔ ایک ہم ہیں'‏ جو<br />

اس زبان سے متعلق ہیں'‏ اس زبان کی پیٹھ ٹھوک<br />

رہے ہیں <strong>اور</strong> انگریزی کی'‏ جو لسانی اعتبار سے کم<br />

زور ترین ہے'‏ کی ریکٹم چوسائی میں ترقی <strong>اور</strong> فالح<br />

سمجھتے ہ یں۔<br />

اردو کے استعمال کرنے والے'‏ اس قسم کی بات کرنے<br />

والے'‏ اردو محسنوں کے نام تک سے آگاہ نہیں ہوں<br />

گے۔ تحقیقی کام بھی'‏ اپنا یا اپنی ٹاہنی کا بندہ ہے'‏<br />

کے حوالہ سے ہو رہے ہیں ۔ یا ہوا ہے۔ یہ بات محض<br />

رائےتک ہی محدود نہیں'‏ بات آگے بھی بڑھتی ہے۔<br />

مالحظہ ہو<br />

میں نے اردو میں مہارت تامہ بہم پہنچائی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں<br />

تک کہ شعر کہنے لگی <strong>اور</strong> الہور کے بعض مشاعروں<br />

میں بھی شرکت ک ی۔<br />

ریشہءحنا ص<br />

4<br />

گویا زیر حوالہ شخصیت'‏ صرف نثر سے متعلق ہی<br />

نہیں تھی'‏ اردو میں شعر بھی کہتی تھی۔ میں شیریں<br />

زاد بہنام کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کا تعلق


تہران'‏ ایران سے تھا <strong>اور</strong> یہاں خانہءفرہنگ ایران<br />

سے وابستہ تھیں۔ اردو شاعری سے دل چسپی ہونے<br />

کے سبب'‏ ان کا یہاں کے اردو شعرا سے واسطہ رہتا۔<br />

ان سے شعر و<strong>ادب</strong> سے متلعلق تبادلہءخیال ہوتا۔ اس<br />

بات کا انہوں نے دیباچے میں تذکرہ بھی کیا ہے ۔<br />

اردو شعر کے حوالہ سے'‏ انہوں نے کیا خوب صررت<br />

بات لکھی ہے'‏ لکھتی ہیں۔<br />

اردو شعر میں وہ سارے لوازمات پائے جاتے ہیں جو<br />

فارسی شعر کا خاصہ ہیں۔.......‏ گویا اردو <strong>اور</strong> فارسی<br />

یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہ یں۔<br />

ریشہء حنا ص<br />

11<br />

'<br />

پیش نظر شیریں زاد بہنام کی نثر'‏ بڑے پائے کی نثر<br />

ہے۔ ان کے کام کو جمع ہونا چاہیے تھا۔ اردو والے<br />

اس جانب توجہ دیتے خانہ فرہنگ ایران یا ان کے<br />

گھر والے ضرور تعاون کرتے۔ یہ ماننے کی بات نہیں<br />

کہ سب <strong>کچھ</strong> ضائع ہو گیا۔ رف پرزے وغیرہ تالش<br />

کرنے پر'‏ مل ہی جائیں گے۔ قمر نقوی صاحب کے<br />

ذخیرہ میں <strong>کچھ</strong> نا<strong>کچھ</strong> تو ضرور ہو گا۔ خطوط'‏ رقعے'‏


یاد داشتیں وغیرہ مل سکتی ہیں۔ ان سے ملنے والے<br />

بہت سے'‏ شاعر بھی تھے۔ وہ شعرا کا کالم صرف<br />

سنتی ہی نہیں'‏ سناتی بھی ہوں گی۔ ان کے ساتھ خط و<br />

کتابت بھی کرتی ہوں گی۔ ایک ایک قطرے سے دریا<br />

بن جائے گا۔ قمر نقوی صاحب سے'‏ ان کے تعلقات<br />

تھے'‏ انہیں اس کام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یقین<br />

ہے وہ اس ذیل میں'‏ تررد فرما کر اردو نوازی کا ثبوت<br />

بہم فرمائیں گے ۔<br />

کالم قمر <strong>اور</strong> ری شہ حنا<br />

کے<br />

نثری حصے کا تعارفی مطالعہ<br />

عابد انصاری صاحب نے'‏ نہایت مہربانی فرماتے<br />

ہوئے'‏ قمر نقوی صاحب کا مجموعہءکالم۔۔۔۔۔۔کالم<br />

قمر۔۔۔۔۔۔ عطا فرمایا۔ یہ قمر نقوی صاحب نے'‏ عابد<br />

انصاری صاحب کو'‏ اپنے دستخطوں سے نومبر<br />

کو عطا کیا تھا/‏ عابد انصاری میرے بہت ہی<br />

اچھے دوستوں میں سے تھے۔ گاہے اپنا تازہ کالم<br />

عطا فرماتے رہتے تھے <strong>اور</strong> میں اس سے'‏ لطف لیتا<br />

رہتا تھا۔ بعد ازاں قمر صاحب نے'‏ مجھ ناچیز کو<br />

11<br />

1991


باطور خاص۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔ عنایت فرمایا۔ اسی طرح<br />

نظم۔۔۔۔۔ ماثورہ۔۔۔۔۔۔ ہاتھ لگی۔ ان کے کالم پر دوسرے<br />

وقت میں کالم کروں گا۔ سردست <strong>کچھ</strong> <strong>اور</strong> باتیں'‏ جو<br />

انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں'‏ عرض کرنے کی<br />

جسارت کر رہا ہوں ۔<br />

ٹائیٹل پیج کی پشت پر قمر نقوی صاحب کا تعارف<br />

‏:درج ہے<br />

سید حسن قمر<br />

نام:‏<br />

نقو ی<br />

الہور<br />

وطن اجداد:‏<br />

میراں سید دمحم شاہ<br />

جد امجد:‏<br />

رح<br />

موج دریا نقوی بخار ی<br />

میراں سید جالل<br />

مورث اعلی:‏<br />

الد ین<br />

جہانی اں جہاں گشت<br />

اچھ شر یف<br />

وطن مالوف:‏ آسی ون ضلغ اناؤ<br />

بھوپال<br />

پیدائش:‏<br />

تاریخ پیددائش:‏<br />

1991


تعلیم:‏<br />

ایم بی<br />

ادیب<br />

رکن:‏<br />

اے<br />

فاضل<br />

ایم اے تار یخ<br />

برٹش انسٹی<br />

ٹی وٹ<br />

نارتھ<br />

قیام:‏<br />

می نجمنٹ<br />

امری کن ہنٹگ کلب<br />

ٹلمسا۔ اوکال ہوما۔<br />

اے<br />

یؤ ایس<br />

سیاست میں حصہ لینے سے پہلے'‏ مولوی فضل<br />

الرحمن المعروف کوثر نیازی کو عالم دین'‏ استاد'‏<br />

شاعر'‏ ادیب'‏ خطیب'‏ مفسر'‏ <strong>اور</strong> مقرر جانتا تھا۔<br />

سیاست میں آنے کے بعد'‏ وہ مولوی وسکی معروف<br />

ہوئے۔ خدا لگتی یہ ہی ہے'‏ کہ میں نہیں جانتا کہ<br />

وسکی سے ان کی کس حد تک جان پہچان تھی یا تھی<br />

بھی نہیں'‏ ہاں البتہ کالم قمر کو دیکھنے کے بعد'‏ ان<br />

کے تین <strong>اور</strong> شخصی پہلو سامنے آئے ہ یں۔


انہوں نے کتاب کا انتساب'‏ قمر نقوی کے نام کیا ہے۔<br />

‏:انتساب کی عبارت <strong>کچھ</strong> ی وں ہے<br />

استاد محترم عالمہ حضرت قمر نقوی مدظلہ العالی کے<br />

نام<br />

گویا وہ حضرت قمر نقوی سے استفادہ کرتے تھے ۔<br />

وہ صوفی بھی تھے۔ جیسا کہ انتساب کے آخر میں<br />

‏:در ج ہے<br />

حقیر فقیر صوفی فضل الرحمن کوثر نیاز ی<br />

قمر نقوی بھی انہیں صوفی صاحب کہہ کر ہی ذکر<br />

کرتے ہیں۔ اس ذیل میں قمر نقوی نے بڑے ہی واضح<br />

الفاظ میں کہا ہے ۔<br />

ان کے تصوف <strong>اور</strong> معرفت کے حوالے سے بھی گفتگو<br />

ضروری ہے کہ ان کی شخصیت بالخصوص ذات<br />

عرفان کی آئینہ دار ہے <strong>اور</strong> ان کی ذات بابرکات<br />

کا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ درخشندہ پہلو ہے۔ امریکہ میں رہ کر مذہب<br />

کی اقدار <strong>اور</strong>احکام کی حفاظت <strong>اور</strong> اصول شرعیہ کی<br />

مدامت کے ساتھ ایمان کی شمع روشن رکھنا'‏ هللا


تبارک تعالی <strong>اور</strong> رسول ملسو ہلص کی محبت کو قائم رکھنا سب<br />

جہاد ہی ہے <strong>اور</strong> صوفی صاحب شب و روز اس جہاد<br />

میں مصروف ہ یں۔<br />

کالم قمر ص:‏<br />

99<br />

وہ بڑے اچھے مصور بھی تھے ۔<br />

انتساب میں ہی چند مزید چیزوں کا انکشاف موجود<br />

ہے ۔<br />

ٹکساس میں بزم اردو'‏ پچھلے دس برس سے'‏ اردو<br />

کی خدمت کر رہی تھ ی۔<br />

بزم کے ‎91‎ویں عظیم الشان مشاعرے میں'‏ کوثر<br />

نیازی کی تصاویر کی نمائش ہوئی <strong>اور</strong> ان کے کام کو<br />

سراہا گ یا۔<br />

بزم اردو کے سرپرستوں میں'‏ حضرت مجید جامی'‏<br />

جناب عرفان علی'‏ جناب سید الیاس جناب سرور عالم<br />

راز'‏ جناب شوکت قادری'‏ جناب ڈاکٹر نرمل سنگھ'‏<br />

جناب نادر درانی جناب ابوطالب ایسے جید لوگ شامل<br />

تھے ۔<br />

'<br />

جناب سرور عالم راز کے نام پر'‏<br />

مجھے رکنا پڑا۔


موصوف عرصہ سے اردو انجمن چال کر'‏ اردو<br />

شعرو<strong>ادب</strong> کی خدمت کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اس<br />

باوقار انجمن سے'‏ میرا تعلق چال آتا ہے <strong>اور</strong> میں بھی'‏<br />

اپنی ناچیز تحریریں اردو انجمن پر رکھ رہا ہوں۔ جناب<br />

سرور عالم راز کا نام پڑھ کر'‏ دل چسپی بڑھنا فطری<br />

سی بات تھ ی۔<br />

قمر نقوی شعر کہنے کے حوالہ سے باظاہر عجیب<br />

لیکن حقیقت میں جو ہے واضح الفاظ میں کہتے ہیں۔<br />

یقینا اسے ہی آمد کا نام دیا جاتا ہے۔ لکھتے ہ یں<br />

میرے کالم کی تخلیق'‏ میرے ارادے یا کوشش کی<br />

مرہون منت نہیں۔ جو بھی کالم وجود میں آتا ہے وہ<br />

الہام کی شکل میں ہوتا ہے <strong>اور</strong> خود باخود هللا تعالی<br />

کی طرف سے میرے ذہن میں پیدا ہونے لگتا ہے۔ جب<br />

بھی کوئی کالم وارد ہونے کو ہوتا ہے تب مجھے اس<br />

کا احساس ہو جاتا ہے۔ طبعت میں ایک قسم کی بے<br />

چینی <strong>اور</strong> توجہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے<br />

5 کالم قمر ص


یگئ<br />

یہ انہوں نے سو فی صد درست بات کہی ہے۔ میں<br />

چاہوں یا مجھے کہا جائے'‏ ایک نظم لکھ کر دو۔ سارا<br />

دن بیٹھا رہوں'‏ ایک سطر بھی نہیں لکھ پاتا ۔<br />

ایک انہوں نے عجیب بات کہی ہے ۔<br />

کسی رات خواب میں غزل آنا شروع ہو جاتی ہے۔<br />

کبھی دو چار شعر ۔۔۔۔۔۔۔<br />

پڑھنے لکھنے والے'‏ رات کو قلم کاغذ قریب رکھتے<br />

ہیں۔ جاگتے میں بھی آئیڈیا آ سکتا ہے۔ خواب صبح<br />

تک یاد میں رہیں'‏ ضروری نہ یں۔<br />

قمر نقوی کی<br />

فراہم کی<br />

اردو سے محبت'‏ جذباتی وابستگی <strong>اور</strong><br />

معلومات دل کو سکون <strong>اور</strong> روح کو<br />

طمانیت بخشتی ہیں۔<br />

اردو کے بارے میں شکوک کا ایک طویل سلسلہ چل<br />

نکال ہے۔ نجانے کیوں ہر کہہ و مہہ کو یہ فکر الحق<br />

ہو گئی ہے۔ اگرچہ اردو کو بچثیت زبان کوئی خطرہ<br />

نہیں۔۔۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong>۔۔۔۔۔۔ انشاءهللا۔۔۔۔۔ زندہ رہے گی۔۔۔۔۔۔اس کی<br />

حیات جاوداں کا ایک <strong>اور</strong> ثبوت تو یہ ہے کہ امریکہ


۔۔۔۔۔۔۔ی یعن ممالک متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی آف<br />

منے سوٹا میں اردو زبان کا شعبہ قائم ہو گیا ہے<br />

جہاں اردو کی ابتدائی تعلیم سے انتہائی تعلیم تک<br />

حاصل کرنے کا انتظام ہے۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> طالب علموں کی<br />

ایک مناسب تعداد اردو زبان سیکھنے میں مشغول<br />

ہے۔۔۔۔۔۔ ایک <strong>اور</strong> یونیورسٹی میں بھی اردو کے<br />

شعبے کا عنقریب فیصلہ ہونے کو ہے انشاءهللا ۔<br />

1 ص۔<br />

قمر نقوی'‏ نثری نظم کے سلسلہ میں'‏ کافی سنجیدہ<br />

نظر آتے ہیں۔ اس صنف شعر پر'‏ انہوں نے کھل کر<br />

بحث کی ہے۔ یہ ہی نہیں'‏ اس صنف شعر سے'‏ ذاتی<br />

وابستگی کے بالتکلف اشارے ملتے ہیں۔ لکھتے ہ یں۔<br />

نثری نظم کا مستقبل تابناک محسوس ہوتا ہے <strong>اور</strong> اس<br />

کو یقینا نظم کی صنف میں ممتاز مقام حاصل ہوگیا<br />

ہے۔۔۔۔ ابھی اس کے کمال کا لمحہ نہیں آیا۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> شادد<br />

اس مقام پر پپہنچنے کے لئے اس صنف کو ان مراحل<br />

سے گزرنا ہو گا جن کے بعد منزل مراد کی حدود کا<br />

‏.آغاز ہوتا ہے<br />

ص 14


ایک دوسری<br />

جگہ پر لکھتے ہ یں۔<br />

اگر اس کو نظم کے قبیلے میں رکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ<br />

واقعی اس صنف کا تقاضا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو اس کی نظمیت<br />

کو برقرار رکھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> نظمیت کا قیام اسی<br />

وقت ممکن ہے جب اس میں شعریت کا وجود ہو ۔۔۔۔۔<br />

بڑی ہی معقول بات ہے۔ شعریت سے عاری چیز'‏ نظم<br />

کی حدود سے باہر رہتی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہ<br />

. یں<br />

شعریت صرف <strong>اور</strong> صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہے<br />

جب اس میں ترنم'‏ تبسم <strong>اور</strong> وزن قائم رکھا جائے گا ۔<br />

15 ص<br />

ترنم <strong>اور</strong> تبسم تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ وزن<br />

والی بات'‏ سمجھ سے باہر ہے۔ وزن کی صورت میں'‏<br />

اسے نثری نظم کیوں کہا جائے گا۔ وزن دانستگی سے<br />

وابستہ ہے۔ دانستگی الہامی کیفیت سے'‏ باہر کی چیز<br />

ہے۔ وزن <strong>اور</strong> بعض مروجہ اطوار فکر کا گال گھونٹ<br />

دیتے ہ یں۔


مرا پیغمبر عظی م تر<br />

کسی بھی صورت میں گوارا نہیں۔ یہ گستاخی <strong>اور</strong><br />

بے<strong>ادب</strong>ی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعر <strong>اور</strong> نثر کے<br />

شعر میں یہ امتیازات وزن سے الگ <strong>اور</strong> ہٹ کر ہ یں۔<br />

امور موجود ہوتے ہ یں۔<br />

فکری <strong>اور</strong>صوتی آہنگ<br />

تبسم<br />

چنچل پننا<br />

حسن شعرہا کا التزام۔ تشبیہ'‏ استعارہ'‏ عالمتیں'‏<br />

تلمیحات <strong>اور</strong>شعری صنعتوں کا فطری اہتمام<br />

شعر<br />

کم لفظوں میں بہت زیادہ کہہ دی ا جاتا ہے<br />

کوملتا'‏ ریشمیت'‏ نزاکت'‏ والہانہ پن وغی رہ<br />

غنا<br />

لفظوں کی نشت و برخواست نثر سے قطعی ہٹ کر <strong>اور</strong><br />

الگ تر<br />

میں اپنے کہے کی سند میں فقط ایک مثال پیش کرنے<br />

کی جسارت کرتا ہوں ۔<br />

poetic یت


یرہ<br />

اگر یہ شاعری نہیں تو نثر بھی نہیں ہے ۔<br />

دی کھ کے چاند مرے آنگن کا<br />

جانے کیوں پھی کا پڑ جائے<br />

چنچل روپ بہاروں کا<br />

قمر نقوی نے آخر میں اس صنف شعر سے خصوصی<br />

متعلق ہونے کے حوالہ سے کہا ہے ۔<br />

میں بتدر یج<br />

ان قواعد و ضوابط کے اختراع <strong>اور</strong> تنظیم کے کام میں<br />

مشغول ہوں <strong>اور</strong> ممکن ہے <strong>کچھ</strong> دن بعد میں کوئی ایسا<br />

فن اختراع میں کامیاب ہو جاؤں جو فن عروض کا<br />

مماثل ہو کر نثری نظموں کی پاسبانی کر سکے ۔<br />

12 ص<br />

اس ذیل میں کیا پیش رفت ہوئی'‏ میں آگاہ نہیں ہوں۔<br />

اگر کسی صاحب کو آگاہی ہو'‏ تو ضرور قلم اٹھائے۔<br />

جو بھی سہی شاعری کی کوئی بھی صنف <strong>اور</strong> صورت<br />

ہو'‏ یہ طے ہے'‏ کہ پرلطف شاعری ایک خودکار<br />

عمل ہے ۔


....<br />

کالم قمر میں قمر نقوی کا مقالہ۔۔۔۔۔ تیسرا زاویہ۔۔۔۔۔<br />

معلومات <strong>اور</strong> یادوں کا اچھا خاصا ذخیرہ رکھتا ہے۔<br />

اس میں اختر حسین شیخ کی تحریر کا ذکر آیا ہے<br />

جانے ان کی تحریر کیوں کتاب میں شامل نہیں ہو<br />

سک ی۔<br />

اس میں ان حضرات سے متعلق یادوں کا ذکر ملتا ہے ۔<br />

اقبال راہ ی<br />

بلقیس فاطمہ نقو ی<br />

سردار جگنور سنگھ<br />

حاجی ملک مقبول<br />

شاہد واسط ی<br />

شری ن زاد بہنام<br />

ظفر علی راجہ<br />

عابد انصار ی<br />

فخرالدی ن بلے<br />

محسن بھوپال ی<br />

مرتضی برالس<br />

پروفیسر ی وسف جمال


۔۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔۔ میں دو مقالے شامل ہیں۔ پہال مقالہ<br />

محترمہ شرین زاد بہنام کا ہے'‏ جب کہ دوسرا مقالہ<br />

جناب قمر نقوی کا ہے۔ محترمہ شرین زاد بہنام کے<br />

مقالے پر'‏ کسی دوسرے وقت میں'‏ گفتگو کروں گا.‏<br />

سردست قمر نقوی صاحب کے مقالے سے متعلق'‏ <strong>کچھ</strong><br />

‏.عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں<br />

مادہ پرستی تو ہر دور کی ریتا ہے <strong>اور</strong> یہ بھی'‏ آج<br />

<strong>کچھ</strong> کم نہیں۔ اس بےحسی کے عالم میں بھی'‏ حسن و<br />

عشق کی اہمیت اپنی جگہ پر قایم رہی ہے۔ آج غم<br />

جاناں پر'‏ غم روزگار کو اہمیت دینے کا نعرہ بلند کیا<br />

جا رہا ہے۔ زبانی کالمی تو یہ ٹھیک ہے <strong>اور</strong> اس کی<br />

حمایت بھی کی جانی چاہیے۔ کہنا <strong>اور</strong> کرن'ا دو الگ<br />

چیزیں ہیں'‏ لہذا اسے عملی جامہ پہنانا امکان میں ہی<br />

نہیں۔ غم جاناں کی آڑ میں'‏ عصری کرب کا بھی اظہار<br />

ہوتا آیا ہے۔ ظفر کا یہ شعر'‏ کے تناظر میں<br />

دیکھیے'‏ معنویت ظاہر سے یکسر ہٹ کر سامنے آئے<br />

گ ی۔<br />

1554<br />

چشم قاتل تھی<br />

جیسی اب ہو گئی<br />

مری دشمن ہمیشہ لی کن<br />

قاتل کبھی ایسی تو نہ تھ ی


قمر نقوی نے اس مدے پر ہی بحث کی ہے <strong>اور</strong> ان کا<br />

موقف <strong>اور</strong> انداز بڑا جان دار ہے۔ ان کا یہ جملہ<br />

دیکھیے کتنا باوزن ہے ۔<br />

حقیقت یہ ہے کہ حسرتوں آرزوں تمناؤں مرادوں <strong>اور</strong><br />

خوابوں کا کوئی مقررہ دور نہیں ہوا کرتا'‏ اس لئے کہ<br />

حسن <strong>اور</strong> عشق زمان و مکان کے اسیر نہیں ہیں۔ ص<br />

11<br />

اپنے کہے کی سند میں اشعار درج کیے ہیں۔ پہال شعر<br />

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رح کا درج<br />

کیا ہے ۔<br />

اندر آئینہ جاں عکس جمالے دی دم<br />

ہمچوں خورشید کہ در آپ زاللے دی دم<br />

یہ بات غلط بھی نہیں کہ کالم میں نازکی'‏ شیفتگی'‏<br />

کشش <strong>اور</strong> آشفتگی کیسے پیدا ہو گی۔ حسن و عشق ہی<br />

تو یہ جوہر اس میں پیدا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ان<br />

عناصر کو پیدا کرنے کے لیے اس نوع کے لفظوں کی<br />

ضرورت پیش آئے گی۔ لکھتے ہ یں۔


جذبات کے اظہار وبیان کو نظم کی شکل دینا <strong>اور</strong> اس<br />

لفظی شکل کو مضمون کے مزاج سے ہم آہنگ کرنا<br />

ہی کمال شاعری ہے۔ ص<br />

19<br />

نقوی<br />

صاحب کا کہنا ہے<br />

جن شعرا کو قبول عام <strong>اور</strong> شہرت دوام حاصل ہوئی ان<br />

کا وہی کالم بنیاد عظمت بنا جو سادہ <strong>اور</strong> عام فہم تھا۔<br />

زبان کی سادگی روزمرہ <strong>اور</strong> بیساختگی ان مشاہیر کا<br />

طرہءامتیاز <strong>اور</strong> فصاحت بالغت و لطافت کالم ان کی<br />

خصوصیات رہیں۔ ص<br />

91<br />

اس کے بعد انہوں نے فصاحت بالغت <strong>اور</strong>سادگی کی<br />

استاد شعرا کے کالم سےاسناد کے ساتھ پرمزہ <strong>اور</strong><br />

پرمغز گفت گو کی ہے ۔<br />

فصاحت کی ا ہے<br />

فصاحت نظم کا وہ لباس ہے جو اس کے پیکر نازنین<br />

سے نہ صرف کامال مربوط ہو بلکہ اس کی زیب


وزینت <strong>اور</strong> مراد شعر کی لطافت و نفاست کا باعث ہو۔<br />

91 ص<br />

بالغت کیا ہ ے۔<br />

بلیغ کالم وہ ہے جو فصیح ہو عیوب سے پاک ہو <strong>اور</strong><br />

مقتضائے حال کے مناسب ہو۔ ص 94<br />

سادگی<br />

کے بارے می ں ان کا موقف ہے کہ<br />

سادگی سے مراد وہ صورت لفظی ہے جو عام فہم ہو<br />

<strong>اور</strong> عالم و عام دونوں طبقات کے افراد کے لئے قابل<br />

اعتنا قرار پا سکے۔ ص 91<br />

کتاب کے آغاز میں قمر نقوی نے جو مقالہ پیش کیا<br />

ہے'‏ کمال کی معلومات رکھتا ہے۔ اچھے کالم کے<br />

اصول <strong>اور</strong> معیارات بڑے خوب صورت انداز میں درج<br />

کیا ہے۔ یہ شاعر <strong>اور</strong> شعر کے قاری <strong>اور</strong> سامع کے<br />

لیے برابر کی افادیت رکھتا ہے ۔<br />

بالغت کے ضمن میں جدید و قدیم شعرا سے سند پیش


کرتے ہیں۔ اس ذیل میں غالب کے کالم سے بھی سند<br />

پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں غالب کا یہ شعر<br />

فصیح و بلیغ ہے لطیف نہ یں<br />

آگہی دم شنیدن جسقدر چاہے پھی الئے<br />

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقری ر کا<br />

غالب کے اس شعر کو لطیف قرار دیتے ہ یں۔<br />

موت کا ایک دن معی ن ہے<br />

نیند کیوں رات بھر نہیں آت ی<br />

بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مجموعہ شعر کے ساتھ<br />

معلومات افروز نثر بھی پڑھنے کو ملے۔ قمر نقوی<br />

کے ہاں یہ کمال شعر و نثر لطف اندوزی کے لیے<br />

میسر آ جاتا ہے ۔<br />

مصوری سے متعلق کالم ترتیب وار درج ہ یں۔<br />

چال ہوں لے کے می ں سرکار دوعالم کے لئے<br />

جمال شعر و<strong>ادب</strong>'‏ فکر و فن کا نذر انہ<br />

..........


جانے کس نے یہ در کعبہ پہ جا کے لکھ د یا<br />

اس کا گھر کہتے ہیں اس کو جس کا کوئی گھر نہ یں<br />

..........<br />

کی سے دل کو سمجھاؤں ہے نظر کا دھوکا سب<br />

چاند میں جو ہاال ہے کان میں جو بالی ہے<br />

.........<br />

مرے لمحے غزاالن حرم ہ یں<br />

یہ روز وشب ہی میرے ہمقدم ہ یں<br />

قمر لکھتا ہوں خود اپنا مقدر<br />

مری طویل میں لوح و قلم ہ یں<br />

.........<br />

ایسی حالت میں کہ ہے انجام دونوں ہی کا ا یک<br />

شمع اب کس کو کہوں می ں کس کو پروانہ کہوں<br />

...........<br />

راہ منزل میں قدم دی کھ کے رکھنا کہ قمر<br />

گرنے والے کو زمانے نے سنبھاال بھی نہ یں<br />

.........


قصہء منصور و سرمد نہ ہوتا تو قمر<br />

دفتر عشق می ں مضمون ہمارا ہوتا<br />

............<br />

بس ایک رقص تک ہی نہ رہ جاؤ دوستو<br />

قاتل چھپا ہوا ہے پس دیوار دی کھنا<br />

...........<br />

! کن<br />

ہزار آبلہ پائی کا غم رہے لی<br />

نظام شوق میں الزم سفر ہی کرنا ہے<br />

نظم۔۔۔۔<br />

...........<br />

آنسو <strong>اور</strong> نگی نہ<br />

...........<br />

الفان ی نظم۔۔۔۔<br />

...........<br />

مرا شمار بھی کرنا رموز قدرت م یں<br />

کہ میں بھی اپنے زمانے کے واجبات می ں ہوں


..........<br />

آنا ہو اگر تم کو آساں ہے پتہ می را<br />

دیوار گری ہو گی بجھتا سا دی ا ہو گا<br />

فن تدوین'‏<br />

مباحث <strong>اور</strong> مسائل<br />

جائزہ تعارفی ۔۔۔۔۔۔<br />

متن کی تدوین یا متن سے متعلق ہر کام'‏ ناصرف<br />

باریک بینی کا متقاضی ہے'‏ بلکہ بڑا حساس <strong>اور</strong> بڑی<br />

ذمہ داری کا ہے۔ معمولی سی کوتاہی <strong>اور</strong> غفلت'‏<br />

درستی کے ضمن میں'‏ سال ہا سال ہٹرپ جاتی ہے۔<br />

غلطی پھر بھی درست نہیں ہو پاتی۔ گویا معاملہ تادیر<br />

متنازعہ ہی رہتا ہے۔ متنی غلطی درحقیقت تفہیمی<br />

معامالت میں گڑبڑ کا سبب بنتی ہے۔ ہر کہا ناصرف<br />

کہنے والے کے جذبات'‏ نظریات ترجیحات'‏ حاجت<br />

وغیرہ کی عکاسی کرتا ہے'‏ بلکہ وہ اپنے عہد کی'‏<br />

منہ بولتی شہادت بھی ہوتا ہے ۔<br />

'<br />

'<br />

1799<br />

میں ٹیپو کو شہید کرنے والے کے لیے'‏ میر صاحب<br />

نے کتے کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ استعمال کی دو


صورتیں ملتی ہیں۔<br />

کس کتے نے مارا ہے<br />

کس کتے نے پھاڑا ہے<br />

پہلی صورت میں'‏ یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے'‏ جو<br />

ایک حادثے کی یاد تازہ کرتا ہے ۔<br />

دوسری صورت میں'‏ بربریت سامنے آتی ہے'‏ جو<br />

نفرت <strong>اور</strong> حقارت کا سبب بنتی ہے ۔<br />

میر صاحب اہل زبان کے درجے پر فائز ہیں۔ ان کا<br />

مح<strong>اور</strong>ہ <strong>اور</strong> زبان آج بھی سند کے درجے پر فائز ہے۔<br />

کتا مارتا نہیں'‏ پھاڑتا ہے۔ دوسرا شاعری میں'‏ لفظ یا<br />

مح<strong>اور</strong>ے کا عام سا استعمال'‏ شاعری کو بےلطف <strong>اور</strong><br />

بےذائقہ بنا دیتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں موت ہی<br />

واضع ہوتی ہے'‏ لیکن شعری فصاحت ہی متاثر نہیں<br />

ہوتی'‏ بالغت پر بھی حرف آتا ہے ۔<br />

کاٹنا بھی عمومی استعمال میں ہے۔ مثال<br />

کس کتے نے کاٹا ہے<br />

کاٹتے سانپ'‏ بچھو کیڑے وغیرہ ہیں۔ کتا اس نوع کی<br />

جنس نہیں ہے۔ دوسرا اس سے موت واضح نہیں<br />

ہوتی.‏ ہولناکی بھی سامنے نہیں آتی۔ اس متنی غلطی<br />

نے آج بھی لسانی <strong>اور</strong> تفہیمی ابہام کے دروازے کھول


رکھے ہ یں۔<br />

کاتب بھی اپنے کماالت دکھاتا آیا ہے۔ مثال میری<br />

کتاب۔۔۔۔اردو میں نئی نظم ۔۔۔۔۔ میں شعری مجموعے۔۔۔۔<br />

کلیوں کے خواب۔۔۔۔۔۔ کا کوئی حوالہ آیا تھا۔ کاتب نے<br />

اسے۔۔۔۔ مکھیوں کے خواب ۔۔۔۔۔ بنا دیا۔ وہ اپنی فراست<br />

سے ماضی شکیہ بنانے کا طریقہ کو ماسی شکیلہ<br />

کے نہانے کا طریقہ بنا سکتا ہے ۔<br />

یہ سب عرض کرنے کا مطلب یہ ہے'‏ کہ متنی کام<br />

حساس <strong>اور</strong> ذمہ داری کا کام ہے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول'‏<br />

سنجیدہ <strong>اور</strong> کمٹ منٹ کی تحقیق کار ہیں۔ انہوں نے<br />

متنی کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے'‏ اس کام سے<br />

متعلق تحقیق کار کو ۔۔۔۔فن تدوین'‏ مباحث <strong>اور</strong> مسائل۔۔۔۔<br />

ایسا الجواب <strong>اور</strong> قابل قدر تحفہ عطا کیا ہے۔ اس کے<br />

مواد کو دیکھتے ہوئے'‏ اندازہ ہوتا ہے'‏ کہ انہوں نے<br />

بڑی محنت <strong>اور</strong> مشقت اٹھائی ہوگی۔ اس کتاب کا<br />

ابتدائیہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے تحریر کیا ہے'‏ جس<br />

سے کتاب کی قدر و قیمت <strong>اور</strong> اہمیت کا باخوبی اندازہ<br />

لگایا جا سکتا ہے۔ اس کاوش کے بارے ڈاکٹر تبسم<br />

کاشمیری کا کہنا ہے ۔


یہ کام کافی دشوار تھا۔ بکھرے ہوئے مواد کا حصول<br />

آسان نہ تھا۔ خاص طور پر ہندوستانی مقالوں کا<br />

حصول بہت مشکل تھا۔ عابدہ بتول نے تپتی دوپہروں<br />

یخ بستہ دنوں میں الہور کے کتب خانوں نجی ذخیروں<br />

<strong>اور</strong> علم دوست اصحاب کے گھروں کے چکر کاٹے<br />

<strong>اور</strong> تب کہیں یہ مجموعہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔ علم<br />

دوست حلقوں میں اسے ضرور سراہا جائے گا ۔<br />

فن تدوین'‏ مباحث <strong>اور</strong> مسائل ص<br />

5<br />

اس انمول <strong>ادب</strong>ی تحفے کا دیباچہ پروفیسر شرافت علی<br />

نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے بارے ان کا کہنا ہے ۔<br />

زیر نظر تصنیف کے باال استیعاب مطالعے کے بعد یہ<br />

کہنا بےجا نہ ہو گا کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں<br />

پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گ ی۔<br />

فن تدوین'‏ مباحث <strong>اور</strong> مسائل ص<br />

11<br />

انہوں نے بیسیوں مضامین میں سے'‏ پاک و ہند کے<br />

جید <strong>اور</strong> نامور محقیقین کے'‏ سنتیس انتہائی متتعلق<br />

مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ انتخاب بڑا ہی مشکل کام<br />

ہے۔ ہر مضمون متنی تحقیق کے حوالہ سے'‏ بڑے کام<br />

کا ہے۔ متنی تحقیق کار کی آسانی کے لیے'‏ اسے


یاب<br />

چھے حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔<br />

تحقیق متن چھے مضام ین<br />

تصحیح متن سات مضام ین<br />

ترتیب متن تین مضام ین<br />

مخطووطہ شناسی دو مضام ین<br />

عملی تحقیق و تنقید سات مضام ین<br />

تدوین کے دیگر مباحث بارہ مضام ین<br />

ان میں سے چھے مضمون رشید حسن خاں کے ہیں۔<br />

ہر حصہ میں مضامین کی ترتیب کا خاص خیال رکھا<br />

گیا ہے۔ ہاں البتہ عملی تحقیق و تنقید م<br />

: یں<br />

2' 6'7' 1' 4'5<br />

1'2'3'4'5'6'7<br />

ہو جاتی'‏ تو شاید بہتر رہتا۔متعلقہ مضامین کی دستی<br />

کی سہولت کے لیے'‏ آخر میں حوالہ جات بھی درج کر<br />

دیے گئے ہ یں۔<br />

عملی تحقیق و تنقید میں'‏ غالب جو اپنی جدت فکری<br />

کے حوالہ سے'‏ وقثوں وقتوں کا شاعر ہے'‏ کے دیوان<br />

کے متن کے حوالہ سے تین مضمون شامل کیے گیے


یگئ<br />

ہیں۔<br />

غالب <strong>اور</strong> نسخہء شیرانی وحید قر یشی<br />

دیوان غالب صدی ایڈیشن نسخہ مالک رام رشید<br />

حسں خاں<br />

دیوان غالب نسخہءعرشی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ<br />

دمحم سع ید<br />

ایک مضمون غالب کے خطوط کے متن سے متعلق<br />

‏.ہے<br />

عرشی <strong>اور</strong> تدوین خطوط غالب ڈاکٹر ظفر<br />

احمد صد یقی<br />

اس کتاب میں متنی تحقیق کے حوالہ سے'‏ اچھا خاصا<br />

مواد پیش کر دیا گیا ہے۔ متنی محقق کو بڑی حد تک'‏<br />

مزید کی ضروت نہیں پڑتی۔ اس کے باوجود'‏ مزید کی<br />

ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ کتاب کے آخر میں<br />

حوالہ جات کے عنوان سے موجود <strong>اور</strong> مزید کی بھی<br />

نشان دہی کر دی ہے ۔<br />

بڑے وثوق <strong>اور</strong> اعتماد سے کہا جا سکتا ہے'‏ کہ ان<br />

کی محنت آج <strong>اور</strong> آتے وقتوں میں بھی'‏ قدر <strong>اور</strong>


پرتحسین نظروں سے دیکھی<br />

جائے گئ ی۔<br />

انسان <strong>اور</strong> انسانی<br />

رو یے<br />

'<br />

'<br />

انسان جب<br />

زمین کا حسن'‏ رنگینیاں آسائشی لوازمات'‏ سامان<br />

عیش وعشرت'‏ سہولتیں'‏ اشیائے خوردنی'‏ وغیرہ<br />

دیکھتا ہے'‏ تو دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں<br />

میں'‏ مقناطیسی قوت ہوتی ہے'‏ جو اس کی رغبت کا<br />

سبب بنتی ہے۔ اشتیاق اسے خود فراموشی کی دلدل<br />

میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ ان کے حصول کی فکر میں<br />

مبتال ہو جاتا ہے۔ پہلے بقدر ضرورت'‏ پھر زیادہ سے<br />

زیادہ <strong>اور</strong> اس کے بعد سب پر'‏ بالشرک غیرے قبضے<br />

کا جنون طاری ہوتا ہے.‏ سکندر پر بھی یہ ہی خبط<br />

طاری ہوا تھا۔ اس کے اس خبط نے'‏ پوری دنیا کو<br />

بےسکون کر دیا۔ اس سے لوگوں کی سوچیں'‏ اسی<br />

دلدل میں پھنسی رہتی ہیں۔ مزید کے بعد مزید کی<br />

سوچ'‏ منفیت کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ ترکیبیں <strong>اور</strong><br />

منصوبے بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ حصول کی سوچ<br />

کے تناسب سے'‏ رویے تشکیل پاتے ہ یں۔<br />

پہلے سے موجود ماحول'‏ حاالت'‏ اطوار وغیرہ بھی


اسی<br />

قماش کے ہوتے ہیں۔ ان سے اثر لینا'‏<br />

بات ہے ۔<br />

فطری سی<br />

اس کی<br />

مختلف صورتیں وقوع پذیر ہوتی<br />

مثال ہیں۔<br />

ایک برتن سے'‏ دوسرے برتن میں دودھ ڈاال جاتا<br />

ہے۔ پہلے برتن کے ساتھ لگے دودھ کے حصول کے<br />

لیے'‏ پانی ڈال کر برتن کو اچھی طرح ہال کر'‏ یہ ہنگال<br />

دودھ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس پر خالص ہونے<br />

کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس دودھ کو<br />

خالص نہیں کہا جا سکتا ۔<br />

دودھ میں نل یا کنویں کا پانی مال کر'‏ دودھ کو زیادہ<br />

کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ۔<br />

دودھ کو زیادہ کرنے کے لیے جوہڑ جس میں جانور<br />

غسل صحت فرماتے ہیں بالتکلف مال دیا جاتا ہے ۔<br />

دودھ بنانے کے لیے'‏ کییکل استعمال کیا جاتا ہے۔ آج<br />

تو دودھی دودھ بنانے لگے ہیں۔ اس میں سرف <strong>اور</strong><br />

بال صفا جیسی چیزیں ڈالتے ہیں۔ افسوس ناک بات تو<br />

یہ ہے'‏ کہ اسے بھی دودھ کہا <strong>اور</strong> سمجھا جاتا ہے۔ وہ


ہے'‏ جو جانتا<br />

اسے دودھ کہہ کرپیسے وصولتا ہے ۔<br />

اصل دودھ اپنی حیثیت میں بڑے کمال کی چیز ہے۔<br />

توانائی فراہم کرتا ہے ۔<br />

ہنگال یا نلکے کا پانی داخل کر دیا جائے'‏ تو وہ خالص<br />

نہیں رہتا'‏ لیکن یہ خطرناک نہیں ہوتا۔ ہاں خالص کی<br />

سی توانائی سے محروم رکھتا ہے ۔<br />

اب جب اس میں'‏ گندے پانی کی مالوٹ کی جائے گی'‏<br />

تو یہ ناصرف توانائی سے مرحوم ہو جائے گا'‏ بلکہ<br />

خوف ناک ہو جائے گا۔ ہاں اس سے انکار نہیں کہ اس<br />

میں دودھ بھی ہے ۔<br />

ان میں سے کوئی دودھ'‏ اپنی اصل فطرت پر نہیں۔<br />

موجودہ دودھ فطرت ثانیہ پر ہے۔ فطرت ثانیہ کسی<br />

سطع پر درست نہیں ہو سکت ی۔<br />

خودساختہ سراب نما دودھ کی اپنی الگ سے فطرت<br />

ہے۔ اس کی فطرت سے'‏ آلودہ کی موجودہ فطرت کا<br />

بھی تقاضا نہیں کیا سکتا۔ وہ دودھ ہی نہیں تو تقاضا<br />

کیسا۔ اصل تو بڑی دور کی بات ہے ۔


انسانی رویے اس مثال کے مماثل رہے ہیں۔ ادیب<br />

شاعر بھی'‏ ان رویوں کو قلم بند کرتے ہیں۔ وہ خود<br />

بھی کسی ناکسی سطع پر'‏ ان میں سے کسی ایک پر<br />

ہوتے ہیں'‏ اس حوالہ سے غیرجانبدار ہو کر بھی'‏<br />

غیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ جو بھی سہی'‏ ان کے ہاں<br />

آج کی شہادتیں موجود ہوتی ہیں۔ جنھیں آتا کل'‏ تالش<br />

ہی لیتا ہے۔ آج بھی قاری'‏ بوقت مطالعہ'‏ اپنی فطرت پر<br />

ہوتا ہے.‏ دوران مطالعہ محبت نفرت'‏ خوشی دکھ'‏ ہم<br />

دردی سفاکی وغیرہ کیفیات سے دوچار ہوتا ہے ۔<br />

ایک قدیم اردو شاعر کے کالم کا تعارفی<br />

جائزہ<br />

و لسانی<br />

مخدومی و مرشدی جنت مکانی قبلہ سید غالم حضور<br />

کے علمی و<strong>ادب</strong>ی ذخیرے سے ملنے والی کتاب'‏ اظہار<br />

دمحمی منظور احمدی'‏ کب <strong>اور</strong> کس سن میں شائع ہوئی'‏<br />

ٹھیک سے کہا نہیں جا سکتا۔ اس پر تاریخ <strong>اور</strong> سن<br />

درج نہیں ہے۔ ہاں پبلیشر کا نام فقیر فضل حسین<br />

تاجر کتب ابن حاجی عالؤالدین مرحوم ساکن پتوکی<br />

نوآباد ضلع الہور.....‏ درج ہے۔ پتوکی نوآباد ضلع<br />

الہور سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ اس چوبیس<br />

.....


صفحے کی<br />

اشاعت'‏<br />

اس وقت ہوئی'‏<br />

آباد ہوا تھا ۔<br />

جب پتوکی<br />

نیا نیا<br />

اس میں مولوی احمد یار کی پنجابی مثنوی'‏ مرزا<br />

صاحبان کا <strong>کچھ</strong> حصہ درج ہے۔ گویا یہ ان دنوں کی<br />

بات ہے'‏ جب وہ زندہ تھے <strong>اور</strong> مثنوی مرزا صاحبان<br />

تحریر کر رہے تھے۔ یہ کالم ص‎11‎ تک ہے۔<br />

ص‎15-14‎ پر سترہ پنجابی اشعار پر مشتمل کافی بھی<br />

ہے۔ گویا مولوی احمد یار پنجابی کافی بھی کہتے<br />

تھے۔ پنجابی میں ان کی صرف مثنوی مرزا صاحبان<br />

پڑھنے کو ملتی ہے ۔<br />

کتاب کے بقیہ صفحات پر'‏ مولوی غالم دمحم کا اردو<br />

پنجابی <strong>اور</strong> فارسی کالم شامل ہے۔ سرورق پر موجود<br />

معلومات کے مطابق'‏ مولوی غالم دمحم قسمانہ ساکن<br />

صابا تحصیل دیپالپور تھانہ حجرہ ضلع منٹگمری حال<br />

ساہی وال کے تھے۔ ص‎11-11‎ پر ریختہ کے نام<br />

سے کالم درج ہے۔ یہ کل نو شعر ہیں۔ انہوں نے لفظ<br />

ریختہ زبان کے لیے لکھا ہے یا اردو غزل کے لیے'‏<br />

واضح نہیں۔ پہال پانچواں <strong>اور</strong> آخری شعر غزل کے<br />

مزاج کے قریب ہے۔ غزل کے باقی اشعار'‏ مروجہ


عمومی مزاج سے لگا نہیں رکھتے۔ ہاں غزل میں<br />

صوفیانہ طور'‏ صوفی شعرا کے ہاں ضرور ملتا ہے ۔<br />

نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کی وں ہوتا<br />

نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کی وں ہوتا<br />

نہ پڑتا پرہ تو حق کا اگر رخسار خوباں پر<br />

تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کی وں ہوتا<br />

مقیم اس دام زلفمیں نہ بھنستا اگر دل تی را<br />

تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کی وں ہوتا<br />

ص‎19‎ پر ایک خمسہ ہے'‏ جسے مولود شریف کا نام<br />

دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مولود شریف شیخ سعدی<br />

صاحب کے چار شعر دیئے گیے ہیں۔ اردو مولود<br />

شریف کے بعد'‏ مولود شریف مولوی جامی صاحب<br />

کے'‏ نو شعر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود<br />

شریف کے عنوان سے'‏ نو شعر درج کیے گیے۔ ص<br />

پر موجود کالم کو کافی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کالم<br />

کو نہ پنجابی کہا جا سکتا <strong>اور</strong> ناہی اردو'‏ تاہم بعض<br />

شعر اردو کے قریب تر ہیں۔ دو ایک شعر باطور نمونہ<br />

مالحظہ ہوں ۔<br />

کائی کہو سجن کی بات جن کے پریم لگائی چاٹ<br />

19


پہال شعر<br />

سلیمان نبی بلقیس نہ ہو ہک آہی مطلق ذات<br />

پانچواں شعر<br />

بحر محیط نے جوش کیا تب نوروں ہویا خوش کیا<br />

چھٹا شعر<br />

کامل پیر پناہ ہمارا موم کرے دل لوہا سارا<br />

چھبسواں شعر<br />

دو غزلیں فارسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دیا گی ا ہے<br />

غزل مولوی غالم دمحم از صابا<br />

اے بنات تو مزین مسند پیغمبری وے خجل<br />

گشتہءرویت آفتاب خ<strong>اور</strong> ی<br />

مطلع فارسی غزل ص<br />

11<br />

غزل از غالم دمحم صاحب<br />

جاں فدائے تو یا رسول هللا دل گدائے تو<br />

هللا<br />

مطلع فارسی غزل ص<br />

یا رسول<br />

19<br />

پنجابی کالم کے لیے'‏ لفظ کافی استعمال ہوا ہے۔ داخلی<br />

شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے'‏ کہ لفظ ریختہ


اردو غزل کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ وغیرہ یدل<br />

میں جو مشاعرے ہوا کرتے تھے'‏ ان کے لیے دو<br />

اصطالحات رواج رکھتی تھیں۔ فارسی کالم کے لیے<br />

مشاعرے'‏ جب کہ اردو کالم کے لیے'‏ لفظ مراختے<br />

رواج رکھتا تھا.‏ لفظ اردو محض شناخت کے لیے لکھ<br />

رہا ہوں'‏ یہ لفظ عمومی رواج نہ رکھتا تھا ۔<br />

اس صورت حال کے پیش نظر'‏ غالب کے ہاں استعمال<br />

ہونے واال لفظ ریختہ'‏ گڑبڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔<br />

مولوی غالم دمحم پہلے کے ہیں'‏ عہد غالب کے ہیں یا<br />

بعد کے'‏ بات قطعی الگ تر ہے۔ مشاعروں میں زیادہ<br />

تر غزلیہ کالم سنایا جاتا تھا <strong>اور</strong> آج صورت حال<br />

مختلف نہیں۔ گویا غزل کے لیے لفظ ریختہ'‏ جب کہ<br />

مشاعرے کے لیے لفظ مراختہ استعمال ہوتا تھا۔<br />

المحالہ زبان کے لیے کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا<br />

ہوگا۔ اس حساب سے غالب کے ہاں بھی غزل کے<br />

معنوں میں اسستعمال ہوا ہے۔ اگر یہ صاحب'‏ غالب<br />

کے بعد کے ہیں'‏ تو اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا کہ لفظ<br />

اردو باطور زبان استعمال ہوتا ہو گا لیکن عمومی<br />

مہ<strong>اور</strong>ہ نہ بن سکا تھا۔ اس کا عمومی مہ<strong>اور</strong>ہ بننا بہت<br />

بعد کی بات ہے ۔


لفظوں کو مال کر لکھنے کا عام چلن تھا۔ اس کتاب<br />

میں بھی یہ چلن موجود ہے۔ مثال<br />

جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجہ نہیں غم<br />

ہم سے ص<br />

تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />

آنکہون میں ص<br />

دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ کا رواج تھا۔<br />

مثال<br />

نہوتا سر مولے کا اگر کجہ ذات انسانم یں<br />

19<br />

11<br />

بہت سے لفظوں کا تلفظ <strong>اور</strong> مکتوبی صورت آج سے<br />

الگ تھی۔ مثال<br />

نہوتا بھیت اسمیں خورشی د فدا کا<br />

بھیت بھید ص<br />

ولی وں کے کاندہے قدم غوث اعظم<br />

کاندہے کندھے ص<br />

11<br />

14<br />

تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کی وں ہوتا<br />

میں اضافت کی بجائے ے کا استعمال کیا گیا ہے ۔


شاعر نے خوب صورت مرکبات سے بھی کالم کو<br />

جازب فکر بنانے کی سعی کی ہے۔ مثال<br />

حسن منظور<br />

تو ہر عاشق کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />

ص<br />

ستارہ دمحم ی<br />

غالب سب سے آیا ستارہ دمحمی ص<br />

مستعمل سب پہ ہے لیکن سب سے استعمال کیا گیا<br />

ہے ۔<br />

مرکب لفظ دیکھ یے<br />

خداگر<br />

عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص<br />

19<br />

14<br />

11<br />

کالم میں ریشمیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مثال<br />

نہ پڑتا پرتوہ حق اگر رخسار خوباں پر<br />

تو ہرعاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />

ص 11<br />

کیا زبردست طور سے صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے ۔<br />

تو دین <strong>اور</strong>کفر میں جدائی نہ ہوتی ص<br />

صنعت تضاد کی مختلف نوعیت کی دو ایک مثالیں <strong>اور</strong><br />

14


مالحظہ ہوں ۔<br />

نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کی وں ہوتا<br />

نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کیوں ہوتا ص<br />

جہاں صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے'‏ وہاں اردو زبان<br />

کو دو خوب صورت استعارے بھی میسر آئے ہیں.اگر<br />

مختار ہو آدم آپن کے خی ر وشر اوپر<br />

تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص<br />

11<br />

11<br />

اشعار تلمیحات سے متعلق ہوتے ہی۔ تلمیحات کا<br />

استعمال اسی حوالہ سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو<br />

ایک مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />

اگر مختار ہو آدم آپن کے خی ر وشر اوپر<br />

تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص<br />

11<br />

لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے<br />

اگر یوں جانتا شیطاں تو وہ مغرور کیوں ہوتا ص<br />

11<br />

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے کا<br />

استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ دو ایک مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />

لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے


یعل<br />

ص 11<br />

بھیت سجن کی خبر لیاوے ص<br />

تو ہم عاجزوں کی رھائی نہوتی ص<br />

19<br />

14<br />

زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی برا <strong>اور</strong> ناموس نہیں۔ مثال<br />

کیا دعوئے اناالحق کا ہویا سردار کیوں ہوتا ص<br />

کائی کہو سجن کی بات<br />

جن کے پریم لگائی چاٹ ص<br />

گذر گیا سر توں پانی ص<br />

11<br />

19<br />

11<br />

اس شعری مجموعے کے اردو کالم پر'‏ پنجابی کے<br />

اثراات واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ بعض جگہ<br />

لسانی <strong>اور</strong> کہیں لہجہ پنجابی ہو جاتا ہے۔ مثال<br />

نہ ہوتا بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ کا ص<br />

تو ہر ذرہ انہاں خورشید سے پرنور کیوں ہوتا<br />

ص<br />

ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص<br />

اب لہجے سے متعلق ایک دو مثثالیں مالحظ ہوں ۔<br />

جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجھ نہیں غم ص<br />

11<br />

19<br />

11<br />

19<br />

کو جے مشکل کشا حق نہ کرتے ص<br />

14


یرہ<br />

یالن<br />

اردو پر ہی موقوف نہیں'‏ پنجابی بھی اردو سے متاثر<br />

نظر آتی ہے۔ مصرعے کے مصرعے اردو کے ہ یں۔<br />

کہیں قطب فرید حقانی<br />

ہے کہیں میراں شاہ جی ہے<br />

کہیں پیر پناہ لوہار ص<br />

کہیں بہاؤالدین ملتانی ہے 19<br />

اس چوبیس صفحے کی مختصر سی کتاب سے'‏ یہ بات<br />

واضح ہوتی ہے'‏ کہ مولوی غالم دمحم آف صابا تین<br />

زبانوں کے شاعر تھے.‏ مختلف اردو اصناف میں شعر<br />

کہتے تھے <strong>اور</strong> اچھا کہتے تھے۔ ان کا کالم کیا ہوا <strong>اور</strong><br />

کدھر گیا'‏ کھوج کرنے کی ضرورت ہے ۔<br />

مثنوی<br />

ماسٹر نرائن داس'‏<br />

ایک <strong>ادب</strong>ی<br />

جائزہ<br />

'<br />

دوسری زبانوں کی طرح اردو'‏ وہ جس رسم الغط میں<br />

بھی مختلف حوالوں سے'‏ اس کے ساتھ دھرو<br />

ہوتا آیا ہے۔ مثال<br />

جنگجوں نے'‏ اسے دشمن کا ذخیرہءعلم سمجھتے<br />

ہوئے'‏ برباد کر دیا'‏ حاالں کہ لفظ کسی قوم یا عالقہ کی


یآئ<br />

ملکیت نہیں ہوتے ۔<br />

اردو کو مسمانوں کی زبان سمجھتے ہوئے'‏ غیر<br />

مسلموں کی تحریوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جب کہ<br />

اصل حقیقت تو یہ ہے'‏ کہ زبان تو اسی کی ہے'‏ جو<br />

اسے استعمال میں التا ہے ۔<br />

گھر والوں نے'‏ چھنیوں'‏ کولیوں <strong>اور</strong> لکڑیوں کو<br />

ترجیح میں رکھتے ہوئے'‏ علمی و<strong>ادب</strong>ی سرمایہ ردی<br />

میں بیچ کر'‏ دام کھرے کر ل یے۔<br />

بہت <strong>کچھ</strong>'‏ حاالت'‏ حادثات <strong>اور</strong> عدم توجہگی کی نذر ہو<br />

گیا۔<br />

قددرتی آفات بھی'‏ اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی<br />

ہیں۔<br />

تہذیبں مٹ گئیں'‏ وہاں محض کھنڈر <strong>اور</strong> ٹیلے رہ گیے۔<br />

بہت <strong>کچھ</strong> ان میں بھی دب گیا۔ بعد کے آنے والوں نے'‏<br />

انہیں بلڈوز کرکے صاف زمین کے ٹکڑے کو'‏ سب<br />

<strong>کچھ</strong> سمجہ لیا۔ اگر محتاط روی اختیار کی جاتی تو<br />

وہاں سے'‏ بہت <strong>کچھ</strong> دستیاب ہو سکتا تھا ۔<br />

ماسٹر نرائن داس'‏ اردو کے خوش فکر <strong>اور</strong> خوش<br />

زبان'‏ شاعر <strong>اور</strong> نثار تھے۔ سردست ان کی ایک کاوش<br />

فکر فوٹو کاپی کی صورت میں'‏ دستیاب ہوئی ہے'‏ جو


یات<br />

پیش خمت ہے۔ اس سے پہلے سوامی<br />

کالم پیش کر چکا ہوں ۔<br />

رام تیرتھ کا<br />

ماسٹر نرائن داس'‏ جو قصور کے رہنے والے تھے<br />

<strong>اور</strong> فرید کوٹ کے مڈل سکول میں'‏ باطور ہیڈ ماسٹر<br />

فرائض انجام دے رہے تھے'‏ اٹھائیس بندوں پر مشتمل<br />

مسدس باعنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر کیا۔ یہ<br />

میں باللی پریس ساڈھورہ ضلع انبالہ میں کریم<br />

بخش و دمحم بالل کے اہتمام طبع ہوا۔ گویا یہ آج سے'‏<br />

112 سال پہلے شائع ہوا۔ اس مسدس کی زبان آج<br />

سے'‏ رائی بھر مختلف نہیں۔ خدا لگتی یہ ہے'‏ اسے<br />

پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا'‏ کہ ماسٹر نرائن داس کو<br />

زبان پر کامل دسترس تھی۔ زبان وبیان میں فطری<br />

روانی موجود ہے۔ اپنا نقطہء نظر'‏ انہوں نے پوری<br />

دیانت'‏ خلوص <strong>اور</strong> ذمہ داری سے پیش کیا ہے ۔<br />

1599<br />

انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے'‏ دس طور اختیار<br />

کیے ہ یں۔<br />

مزے کی بات یہ کہیں مذہبی یا نظری پرچھائیں تک<br />

نہیں ملتی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے'‏ فقط آٹھائیس<br />

بندوں میں زبان بیان کے دس اطوار اختیار کیے۔


بالشبہ ماسٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے <strong>اور</strong><br />

بااصول انسان رہے ہوں گے ۔<br />

انہوں نے سچائی کو مذہب پر فضیلت دی ہے۔ ان کے<br />

مطابق خدا سچائی سے الفت رکھتا ہے۔ کہتے ہ یں۔<br />

سچائی کے عقیدے کو مذہب پر فضی لت ہے<br />

خدا کو بندگان راستی سے خاص الفت ہے<br />

صداقت اپنی حیثیت میں ہے ک یا۔<br />

سچائی رحمت ازلی و ابدی کا خزی نہ ہے<br />

صدق اوج سعادت کا عظیم الشان زی نہ ہے<br />

اس کا فنکشن کیا ہے ۔<br />

ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اعلے بناتی<br />

وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظم سے بھی پاتی<br />

صداقت <strong>اور</strong> کذب کا موازنہ<br />

ملمع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی<br />

نکما محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی<br />

ہے<br />

ہے<br />

کے<br />

کے<br />

صداقت کے فوائد


یکئ<br />

یمن<br />

سچائی ہر دوعالم میں ہے دیتی رتبہ اعلے<br />

سچائی کرتی ہے ہر دو جہاں می ں مرتبہ اعلے<br />

سچائی<br />

کے ضمن می ں دالئل<br />

حکومت بھرتری<br />

تیاگی<br />

سچائی<br />

ہو گیا ساکی<br />

نے چھوڑ دی<br />

..........<br />

.............<br />

خاطر سچائی<br />

خاطر سچائی<br />

کو بنای ا راہنما پہالد نے اپنا<br />

...........<br />

کی<br />

پکڑ کر ہاتھ سے اپنے پئے خاطر سچائی کی<br />

پیالے زہر کے سقراط نے خاطر سچائی کی<br />

مسیحا بھی<br />

...........<br />

ہوئے صلوب تھے خاطر سچائی<br />

.............<br />

ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خاطر سچائی<br />

.............<br />

کی<br />

کی<br />

کی<br />

بچھڑے پیارے وطن سے خاطر سچائی کی<br />

.............<br />

پڑے شعلوں میں جلتی آگ کے خاطر سچائی کی


سچائی<br />

فقرا کا مسلک ہوتی<br />

ہے ۔<br />

سچائی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھاتی ہے<br />

سچائی معرفت کے راستے انکو بتاتی ہے<br />

سچائی کردگار پاک کی قربت دالتی ہے<br />

یہی آخر انہیں درگاہ ایزد میں پہنچاتی ہے<br />

کذب کا انجام کیا ہوتا ہے ۔<br />

کذب دم میں گنواتا ہے شہنشاہونکی عزت کو<br />

تباہ کرتا ہے انکی شان کو شوکت کو ہی بت کو<br />

اسی سے ڈر ہے وقعت کو خطر اس سے دولت کو<br />

گراتا سرنگوں ہے غرض ان کے عالم رفعت کو<br />

ہزل پیشوں کو هللا خاک می ں آخر مالتا ہے<br />

مگر سچوں کا حافظ <strong>اور</strong> مودی <strong>اور</strong> داتا ہے<br />

حکائتی<br />

انداز بھی<br />

اختیار کیا گیا ہے ۔<br />

گڈریے کی حکایت بھی نصیحت خوب دیتی ہے<br />

کہ جسکی شیر کے پنجے سے پیاری جان نکلتی ہے


یست<br />

کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے<br />

سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی ملتی ہے<br />

اہل ہند کے بارے چینیوں <strong>اور</strong> رومیوں کی<br />

آراء<br />

صداقت اہل ہندوستاں کے یونانی<br />

چلن کے اہل ہندوستاں کے چینی<br />

ثنا خواں تھے<br />

ثنا خواں تھے<br />

موجودہ صورت حال<br />

صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />

ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />

سچائی<br />

کے رستے پر چلنے والوں کی<br />

مبارکباد<br />

تحسین <strong>اور</strong><br />

مبارک ہو خوشی اے راستی کے چاہنے والو<br />

مبارک مخروقی اے راستی کے چاہنے والو<br />

مبارک برتری اے را کے چاہنے والو<br />

مبارک خوش روی اے راستی کے چاہنے والو<br />

مبارک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مبارک ہو


مبارک آپ کو یہ مہر<br />

ربانی<br />

مبارک ہو<br />

ان کی مذہبی عصبت سے دوری کا سب سے بڑا ثبوت<br />

یہ ہے کہ انہوں نے ذات باری کے لیے کردگار'‏ ایزد'‏<br />

هللا'رب'‏ خدا نام استعمال کیے ہ یں۔<br />

ماسٹر صاحب کے پاس متبادالت کا خزانہ موجود<br />

ہونے کا گمان گزرتا ہے ۔<br />

سچائی سے خدا تعالے کی<br />

صدق<br />

خدا کو بندگان<br />

کو<br />

نہ ہرگز سانچ<br />

صداقت<br />

........<br />

راستی<br />

........<br />

یا زرہ سمجھو کہ<br />

کی<br />

........<br />

رحمت کی<br />

ترقی<br />

سے خاص الفت ہے<br />

یہ اک زیب تن کی<br />

ہے<br />

کو ہے آنچ اس نے آزما دی کھا<br />

........<br />

مدد ان کو سچائی<br />

اب <strong>کچھ</strong> مرکبات مالحظہ ہوں ۔<br />

کے سہارے ہ یں<br />

ہے


وہ فلک راستی<br />

کے چمکتے گویا ستارے ہ یں<br />

........<br />

مبارک گلستان راستی کے ٹہلنے والو<br />

مبارک زیور صدق و صداقت پہننے والو<br />

.........<br />

ستون سرخ آہن سے خوشی<br />

شہیدان صداقت<br />

.........<br />

سے دوڑ کر لپٹا<br />

نے دیا خاطر سچائی<br />

.........<br />

فتح کےلوک میں پرلوک میں<br />

........<br />

کی<br />

ڈنکے بجاتے ہ یں<br />

کیا خوب مصرع ہیں۔ فصاحت و بالغت کا منہ بولتا<br />

ثبوت ہیں۔ اس ناصحانہ انداز میں تلخی ضرور ہے'‏<br />

لیکن فکری و لسانی حوالہ سے'‏ ان مصرعوں کو<br />

نظرانداز کرنا'‏ زیادتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں<br />

میں'‏ انہوں نے آفاقی سچائی بیان کی ہے ۔<br />

ہوا کرتا ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا نازل<br />

کبھی درگاہ سچی میں نہی ں کازب ہوئے داخل<br />

ہزل پیشوں<br />

..........<br />

کو هللا خاک می ں آخر مالتا ہے


.........<br />

مبارک آپ کو<br />

مہر ربانی یہ<br />

مبارک ہو<br />

ماسٹر صاحب کی<br />

ہوانہیں۔<br />

زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی نفاست سے<br />

دو ایک مثالی ں مالحظہ ہوں<br />

گرا<br />

کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی<br />

کلہاڑی<br />

سچائی<br />

...........<br />

ہے<br />

ہاتھ سے اپنے وہ خود پاؤں پہ دھرتے ہ یں<br />

...........<br />

کا نصیبے والے ہی<br />

............<br />

اسی سے نام رہتا ہے جہاں میں<br />

ہوئی<br />

ہے راستی<br />

..........<br />

دامن پکڑتے ہ یں<br />

ی اد سچوں کا<br />

کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />

مثنوی<br />

کا پہال شعر ہی<br />

تشبیہ پر استوار ہے۔<br />

مالحظہ ہو<br />

سچائی<br />

مثل کندن چمکتی<br />

ہے دندناتی<br />

ہے


وہ جلوہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھاتی<br />

ہے<br />

صنعت تکرار لفظی کا استعمال بھی ہوا ہے۔ ہاں البتہ'‏<br />

دندناتی کی جگہ'‏ کوئی <strong>اور</strong> لفظ رکھ دیتے تو زیادہ<br />

اچھا ہوتا ۔<br />

ایک <strong>اور</strong> خوب صورت سی تشبیہ مالحظہ ہو ۔<br />

'<br />

مگر ہے جھوٹ مثل کانچ اس نے آزما دی کھا<br />

اب صنعت تضاد کی<br />

<strong>کچھ</strong> مثالیں مالحظہ فرما ل یں۔<br />

شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہا اسکا<br />

انتہا کو مونث باندھا گیا ہے <strong>اور</strong> یہ غلط نہ یں۔<br />

.......<br />

سچائی راحت ازلی و ابدی کا خزی نہ ہے<br />

.......<br />

زبان پاک کو اے دل نہ آلودہ کذب سے کر<br />

ماسٹر نرائن داس نے'‏ اپنے عہد کی سچائی کے حوالہ<br />

سے'‏ ہندوستان کی حالت کو'‏ ریکارڈ میں دے دیا ہے۔<br />

کہتے ہ یں


بنای ا جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنما اپنا<br />

سچائی الودع!‏ ہے آجکل کذب وری ا اپنا<br />

دھرم باقی رہا اپنا ن ہ دل قائم رہا اپنا<br />

نہ یارو جھوٹ کے ہاتھوں سے ایماں ہی بچا اپنا<br />

صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />

ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />

مثنوی کا آخری شعر جس میں تخلص استعمال ہوا ہے'‏<br />

پی ش خدمت ہے<br />

یہ عاصی اے سچائی تیرے ہی گھر کا سوالی ہے<br />

ترا ہی داس <strong>اور</strong> تیرے ہی گھر کا سوالی ہے<br />

کہا جاتا ہے'‏ انسان نے ترقی کر لی ہے۔ خاک ترقی کی<br />

ہے'‏ جہاں علم دو نمبر کی چیز ہو <strong>اور</strong> اہل قلم کی موت<br />

کے بعد'‏ ان کے پچھلے'‏ ان کے لہو پاروں کو'‏ ردی<br />

میں بیچ دیں یا طاقت کے نشہ میں چور حکمرانوں<br />

کے پیشہ ور بےرحم جنگجو'‏ اس انسانی ورثے کو'‏<br />

نیست ونابود کر دیں.‏ وہاں ہوس اللچ <strong>اور</strong> نفسا نفسی<br />

کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہوس'‏ اللچ <strong>اور</strong> نفسا<br />

نفسی ترقی ہے'‏ تو وہ بہت زیادہ ہوئی ہے ۔


ماسٹر صاحب نے <strong>اور</strong> بھی بہت <strong>کچھ</strong>'‏ شعر و نثر میں<br />

لکھا ہو گا'‏ <strong>کچھ</strong> کہہ نہیں سکتے۔ تقسیم ہند کا عمل<br />

تقریبا نصف صدی بعد کا ہے۔۔ اس لیے'‏ وہ تقسیم میں<br />

ضائع نہیں ہوا ہو گا۔ آج جامعات'‏ تحیقی ڈگری چھاپنے<br />

میں مصروف ہیں'‏ اگر وہ خاموش اردو کے خدمت<br />

گاروں کو'‏ تالشنے کو بھی'‏ تحقیق سمجھیں'‏ تو یہ<br />

اردو زبان کی بہت بڑی خدمت ہوگ ی۔<br />

باراں ماہ غالم حضور شاہ<br />

ہر پڑھنے لکھنے واال'‏ اپنے ہی گھر میں'‏ اپنی<br />

عزت مآپ تینویں مبارکہ سے ی ہ جملے<br />

ہی<br />

سنتا آ رہا ہے ۔<br />

تم نے زندگی میں کیا ہی<br />

کیا ہے ۔<br />

گھر کو کوڑ کباڑ بنائے رکھا ہے ۔<br />

لوگ جائیدادیں بناتے ہیں تم نے جائیداد میں بس ردی<br />

ہی بنائی ہے ۔


لٹیرے <strong>اور</strong> تباہ کاریئے عموما چار طرح کے رہے ہ یں۔<br />

ادھر اماں بابا مرے ادھر آل اوالد چھنیوں کولیوں پر<br />

ٹوٹ پڑی۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کے حصول میں<br />

الجھ جاتا ہے۔ بابے کے کاغذات کی ٹھوک بجا کر بڑی<br />

بےدردی سے تالشی لی جاتی ہے کہ بابے نے<br />

کاغذوں کتابوں میں مختصر یا کوئی لمی چوڑی رقم نہ<br />

چھپا دی ہو ۔<br />

تالشی کے بعد بابے کے لفظ'‏ جو اس کی عمر بھر کی<br />

کمائی ہوتے ہیں ردی میں بک جاتے ہیں۔ کہیں<br />

زور<strong>اور</strong> آل اوالد بابے کے مرنے کا بھی انتظار نہیں<br />

کرتی۔ یہ لوٹ مار <strong>اور</strong> توڑ پھوڑ کا سامان اس کی<br />

آنکھوں کے سامنے ہی ہو جاتا ہے۔ ڈھیٹ بن کر جی<br />

رہا ہوتا ہے'‏ لفظوں ناقدری برداشت نہیں کر پاتا <strong>اور</strong><br />

اگلے سفر پر بڑی حسرت <strong>اور</strong> بےبسی سے روانہ ہو<br />

جاتا ہے ۔<br />

چور ڈاکو بھی جہاں گھر کے دوسرے سامان کی<br />

پھروال پھرولی کرتے ہیں وہاں کتب خانے بھی<br />

ویرانے میں بدل جاتے ہیں۔ کہیں <strong>اور</strong> کسی دور میں<br />

کسی بابے نے رقم نام کی چیز رکھ دی ہو گی <strong>اور</strong> یہ


شک چوروں میں نسل در نسل چال آتا ہے۔<br />

<strong>اور</strong> سکے کب ہم سفر رہے ہ یں۔<br />

ورنہ علم<br />

حیران چوری ایسا مشکل <strong>اور</strong> دقت گذار پیشہ صدیوں<br />

سے چال آتا ہے۔ ریسک کے ساتھ جگاترا کاٹنا ایسا<br />

آسان کام نہیں۔ اگلے وقتوں میں پکڑے جانے کی<br />

صورت میں چھتر بھی کھانے پڑتے تھے۔عصر حاضر<br />

میں یہ رواج نہیں رہا۔ پہلے ہی مک مکا ہو چکا ہوتا<br />

ہے۔ ہاں چھتروں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ چور شور<br />

مچاتے ہیں <strong>اور</strong> ان کے شور کو اول تا آخر پذیرائی<br />

حاصل رہتی ہے ۔<br />

تیسرے نمبر پر اپنا ہی ملک فتح کرنے والے آتے ہیں۔<br />

یہ جہاں جان مال <strong>اور</strong> امالک کو غارت کرتے ہیں وہاں<br />

لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی جمع پونجی ردی کو<br />

بھی برباد کرکے رکھ دیتے ہ یں۔<br />

بیرونی حملہ آواروں زبان غیر کی مرقومہ ذہانت و<br />

فطانت سے کیا لینا دینا۔ وہ زمین امالک <strong>اور</strong> سونے<br />

چاندی کے سکوں کی چمک دمک میں اپنے ہاں کی<br />

ردی کو بھی خاطر میں نہیں التے ۔


یگئ یسن<br />

مخدومی ومرشدی سید غالم حضور نے دنیا کو 1955<br />

میں الودع کہا تو محترمہ والدہ صاحب نے چلتی<br />

سانسوں تک مکان آباد رکھا۔ حسب سابق بچے ان<br />

سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ آخر مروت بھی کوئی<br />

چیز ہوتی ہے صرف دو چار بار مکان کے تو تکرار<br />

ہوئی۔ میری خواہش تھی کہ مخدومی ومرشدی سید<br />

غالم حضور کی اقامت گاہ کو بہرطور آباد رہنا چاہیے۔<br />

وہ مجبور تھیں وقت سے پہلے کس طرح مر جاتیں۔<br />

چھنوں کولیوں کے شوکینوں کی <strong>اور</strong> وہ<br />

میں انتقال فرما گئیں۔ کفن دفن کے ساتھ ہی<br />

کیل کانٹوں سے لیس قبضہ گروپ نے قدم جما لیے۔<br />

میں نے غور ہی نہ کیا۔ امی ابا ہی نہ رہے تھے اب<br />

میرے لیے وہاں کیا رہ گیا تھا ۔<br />

1992<br />

مخدومی ومرشدی سید غالم حضور پنجابی شاعر<br />

تھے۔ عالوہ ازیں بھی اچھی خاصی ردی ورثہ میں<br />

چھوڑی تھی۔ اس کا کیا ہوا یہ ایک الگ سے کہانی<br />

ہے۔ اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔<br />

چھوٹی نصرت شگفتہ نے ایک رجسٹر مہیا کیا ہے۔<br />

کا کالم ہے۔ رجسٹر کی حلت<br />

اس میں<br />

12<br />

,15<br />

,1914


یآت<br />

کا <strong>کچھ</strong> نہ پوچھیے۔ اگر اس پر تاریخیں درج نہ ہوتیں<br />

تو میں نے اس کے حضرت آدم ع سے پہلے ہونے کا<br />

دعوی داغ دینا تھا۔ گویا میرے والد صاحب مخدومی<br />

ومرشدی سید غالم حضور'‏ حضرت آدم ع سے پہلے<br />

ہو گزرے ہ یں۔<br />

اس میں مختلف نوعیت <strong>اور</strong> مختلف اصناف پر مبنی<br />

کالم ہے۔ بارہ ماہ مقبول و معروف صنف شعر رہی<br />

ہے۔آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج میں نہیں رہے<br />

لہذا یہ صنف <strong>ادب</strong> ہی ختم ہو گئی ہے۔ یہ بھی اس<br />

رجسٹر میں ملتے ہیں۔ سن اندراج درج نہیں۔ کاتب<br />

کون ہے ٹھیک سے <strong>کچھ</strong> کہہ نہیں سکتا۔ ساون کے<br />

چاروں شعر ہیں۔ آخری مصرع پڑھا نہیں جا رہا۔ پھاگن<br />

کے دو مصرعے اندراج میں آئے ہیں۔ دونوں ہی<br />

پڑھے نہیں جا رہے۔ آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج<br />

میں نہیں رہے لہذا یہ صنف <strong>ادب</strong> ہی ختم ہو گئی ہے ۔<br />

ہر مہینے کے برصغیر میں الگ سے رنگ رہے ہیں۔<br />

قدرتی طور شخص کے جذبات <strong>اور</strong> احساسات ان کے<br />

حوالہ سے تبدیلی ہے۔ شاعر باریک بین ہوتا ہے<br />

<strong>اور</strong> وہ بدلتے موسموں کے ساتھ شخص کے باطنی


رنگوں کا بھی مطالعہ کر لیتا ہے <strong>اور</strong> ان رنگوں کا<br />

اظہار بھی اسی طور سے کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔<br />

باباجی کے ان بارہ مہینوں میں ہجر کی مختلف کیفیات<br />

کو بیان کیا گیا ہے۔ زبان بالکل سادہ <strong>اور</strong> عوامی ہے۔<br />

مفاہیم تک رسائی کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔<br />

البتہ دو اطوار اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں معاملہ ذات<br />

سے <strong>اور</strong> کہیں سیکنڈ پرسن کے حوالہ سے بات کی<br />

ہے۔ دونوں صورتوں کی مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />

غالم حضور شاہ بالوے بیٹھا کوئی سندا نئیں -1<br />

واجاں نوں<br />

غالم حضور شاہ نوں اللچ ال کے گالں دے وچہ ٹالیا<br />

سو<br />

م حضور شاہ دے آکھے لگ کے دکھڑے میں<br />

سناواں گ ی<br />

غالم حضور شاہ دے آکھے لگ کے کھوتا کھوہ چا<br />

پایا ا ی<br />

غال -2


یخت<br />

صنف ری کے عالوہ بھی صیغہ تانیث استعمال<br />

کرنے کا عام رواج تھا۔ بابا جی کے ہاں یہ رویہ ملتا<br />

ہے۔ مثال<br />

چیت مہینہ چڑھیا اڑیو میں ہن لبھن جاواں گ ی<br />

وساکھ وساکھی ٹر گئے لوکیں گھر وچہ بیٹھی رواں<br />

میں<br />

گھر وچہ بیٹھی دل پرچاواں کر کر یاد تیریاں ی اداں نوں<br />

باباجی<br />

کے ہاں عوامی مح<strong>اور</strong>ہ <strong>اور</strong> امثال کا بڑی<br />

سے استعمال میں آئے ہیں۔ مثال<br />

گھت کٹھالی گال یا<br />

کھوتا کھوہ چا پایا ا ی<br />

پکاراں کر کر تھک ی<br />

تیر کلیجے ال یا<br />

خوبی<br />

معروف ہے تکیف <strong>اور</strong> دکھ چپ وٹنا درست نہیں۔<br />

کوٹھے پر چڑھ کر اعالن کرو۔ بابا جی کے ہاں<br />

استعمال مالحظہ ہو ۔<br />

کوٹھے چڑھ کھلوواں<br />

بہرطور شخصی احساس <strong>اور</strong> باطنی کیفیات کو بڑے<br />

موثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اب باباجی کا کالم


مالحظہ ہو۔ یہ تحریر میں کب آیا <strong>کچھ</strong> کہ نہیں سکتا۔<br />

ہاں اس رجسٹر پر یا میں نقل کیا گیا۔<br />

اس حساب سے بھی چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو<br />

گیا۔ ناقل نے کہیں ناکہیں ٹھوکر کھائی ہو گی۔ پڑھا<br />

نہیں جا رہا لہذا محفوظ میں بھی نہیں رہا ہوں گا ۔<br />

1915<br />

1914<br />

آشا پربھات'‏<br />

مسکاتے'‏ سلگتے <strong>اور</strong> بلکتے احساسات<br />

کی شاعر<br />

عزیزہ آشا پربھات نے اپنا مجموعہءکالم۔۔۔۔۔<br />

مرموز۔۔۔۔۔۔ ان الفاظ کے ساتھ عطا ک یا۔<br />

صف اول کے فعال ادیب'‏ نقاد <strong>اور</strong> دانشور محترم بھائی<br />

صاحب کو احترام کے ساتھ<br />

آشا پربھات<br />

اگست 8 1992<br />

میں نے <strong>کچھ</strong> لکھا بھی تھا <strong>اور</strong> وہ کہیں شائع بھی ہوا<br />

تھا۔ باوجود کوشش کے'‏ وہ لکھا دستیاب نہیں ہو پا<br />

رہا۔ کالم آج انیس سال بعد'‏ دوبارہ پڑھنے میں آیا ہے'‏<br />

میں بڑی سنجیدگی <strong>اور</strong> دیانت داری سے'‏ محسوس کر


رہا ہوں'‏<br />

اس پر لکھا جانا چاہ یے۔<br />

2<br />

مرموز 1992<br />

میں'‏ پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز جے<br />

کرشن نگر دلی سے'‏ شائع ہوا۔ ٹائیٹل بیک پر'‏ آشا<br />

پربھات کی تصویر تعارف <strong>اور</strong> ان کے کالم پر اظہار<br />

خیال بھی'‏ کیا گیا ہے۔ انہوں نے'‏ اپنے کسی خط میں'‏<br />

لکھنے والے کے متلعلق بتایا ہو گا۔ اب اس خط کا<br />

ملنا'‏ آسان نہیں۔ اس تحریر کے مطابق'‏ آشا پربھات کی<br />

والدت رکسول'‏ بہار میں ہوئی۔ ان کا ناول۔۔۔۔۔ دھند میں<br />

اگا پیڑ۔۔۔۔۔ ماہ نامہ منشور کراچی میں شائع ہوا'‏ جو<br />

بعد میں'‏ کتابی شکل میں بھی شائع ہوا تھا۔ انہوں نے'‏<br />

مہربانی فرماتے ہوئے'‏ ایک نسخہ مجھ ناچیز فانی کو<br />

بھی'‏ عنایت کیا تھا۔ ان کا ایک مجموعہء شعر ۔۔۔۔۔۔<br />

<strong>دریچے</strong>۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زبان کے'‏ دیوناگری خط میں بھی<br />

شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک ہائیکو پر مشتمل<br />

مجموعہ۔۔۔۔۔گرداب۔۔۔۔۔۔ زیر اشاعت تھا ۔<br />

ان کی شاعری سے متعلق کہا گیا ہے ۔<br />

اسلوب <strong>اور</strong> ہیئت کے اعتبار سے ان کی نظمیں شعری<br />

<strong>ادب</strong> کے سرمائے میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی<br />

ہیں۔


اس مجموعے میں'‏ کل اکسٹھ شعر پارے شامل ہیں'‏<br />

جن میں سولہ غزلیں <strong>اور</strong> پانچ اوپر چالیس نظمیں<br />

شامل ہیں۔ آشا بنیادی <strong>اور</strong> پیدائشی طور پر'‏ دیوناگری<br />

رسم الخط سے متعلق ہیں'‏ لیکن اردو رسم الخط سے'‏<br />

ان کی محبت عشق کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا<br />

ہے ۔<br />

اردو میری محبوب ہے <strong>اور</strong> میری محبوب کی آنکھوں<br />

میندھنک کے تمام رنگ لہراتے ہ یں۔<br />

ان کا کہنا'‏ کہنے کی حد تک نہیں'‏ مرموز اس کی<br />

عملی صورت میں موجود ہے۔ واقعی اردو سے وہ<br />

عشق کرتی ہیں۔<br />

اس کاوش فکر کا ابتدائیہ'‏ جو آشا پربھات کا لکھا ہوا<br />

ہے'‏ سچی بات ہے'‏ دل کے نہاں گوشوں میں بھی'‏<br />

ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ مالحظہ فرمائ یں۔<br />

اس کاوش فکر کا ابتدائیہ جو آشا پربھات کا لکھا ہوا<br />

ہے سچی بات ہے دل کے نہاں میں بھی ارتعاش پیدا<br />

کرتا ہے۔ مالحظہ فرمائ یں۔


مجھے نہیں معلوم شاعری کیا ہے۔ شعری آہنگ کیا<br />

ہوتا ہے۔ شعری شعور کیا ہے <strong>اور</strong> داخلی عوامل سے<br />

یہ کس طرح ترتیب پاتا ہے۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ<br />

دھند صرف پہاڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر بھی<br />

پھی یلت ہے۔ سمندر لہراتا ہے۔ دریا موجزن ہوتا ہے۔<br />

طوفان اٹھتے ہیں'‏ پھول کھلتے ہیں'‏ خوشبو پھی یلت<br />

ہے <strong>اور</strong> جب بھی میں ان کیفیتوں سے گزرتی ہوں تو<br />

لفظوں کا سہارا لیتی ہوں <strong>اور</strong> محسوسات کے پراسرار<br />

دھندلکوں میں الفاظ کی قندیل جالتی ہوں لیکن الفاظ<br />

دور تک میرا ساتھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

میرے نزدیک شاعری قندیل جالنے کا عمل ہے۔<br />

مجھے نہیں معلوم میری قندیل کی روشنی محسوسات<br />

کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن کیا یہ کم ہے کہ<br />

میں نے قندیل جالئی ہے <strong>اور</strong> جالئے رکھنے کا عزم<br />

رکھتی ہوں ۔<br />

یہ زبانی کالمی کی باتیں نہیں'‏ مرموز کے مطالعے<br />

کے بعد'‏ یہ تمام کیفیات پڑھنے کو ملتی ہیں۔<br />

لفظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہ یں


یلت<br />

دل کے نہاں خانوں م یں<br />

تم موجود ہو<br />

آکاش میں شبد کی طرح<br />

نظم آکاش میں شبد ص<br />

9<br />

دھند آدمی<br />

کے اندر بھی<br />

ہے ۔ پھی<br />

اب کسی بھی آنکھ م یں<br />

پہچان کی خوشبو نہ یں<br />

چوباروں کے دی ئے<br />

کب کے بجھ چکے ہ یں<br />

بہت جان لی وا سناٹا<br />

وہاں لی ٹا رہتا ہے<br />

نظم گاؤں کا المیہ ص<br />

11<br />

اس ضمن میں ایک <strong>اور</strong> مثال مالحظہ ہو ۔<br />

ہر سو<br />

دھند کا پہرہ ہے<br />

رات خاموش ہے<br />

مٹ ملی چاندن ی<br />

اتر آئی ہے میرے آنگن م یں


میری نظم۔<br />

اداس آنکھیں ص 11<br />

جذب و احسات کا اٹھتا طوفان <strong>اور</strong> ردعملی<br />

مالحظہ ہو<br />

روک لو<br />

ان وحشی درندوں کو<br />

ان کی کنٹھاؤں کے<br />

تی ز ناخونوں کو توڑ ڈالو<br />

یہ نہی ں جانتے<br />

بارود کی ڈھیر پر بی ٹھ کر<br />

خود ماچس جالنے کا انجام<br />

یہ نہی ں جانتے<br />

جھلستے ہوئے انسانوں کے المی ہ کو<br />

۔ جنگ ص<br />

پکار<br />

نظم 11<br />

موجزن دریا <strong>اور</strong> لہراتے سمندر کی<br />

کیفی ت مالحظہ ہو<br />

تمہاری چھوی ابھرتی ہے<br />

ایک روش ہالہ کی طرح<br />

<strong>اور</strong> ایک شکتی بن کر<br />

میری روح میں سما جاتی ہے


میں جی اٹھتی ہوں<br />

امبربیل کی طرح<br />

پلکیں جھپک اٹھتی ہیں<br />

توانائی کا بےکراں سمندر<br />

لہرا اٹھتا ہے میرے انگ انگ م یں<br />

نظم تنہائی ص<br />

12<br />

احساس کی<br />

کہانی<br />

مالحظہ ہو<br />

می رے اندر<br />

کہیں چپ سی پڑی ہے<br />

ایک ننھی چڑ یا<br />

وہ اب نہیں پھدکت ی<br />

نہیں چہکت ی<br />

نہ ہی بارش میں<br />

اپنے پر بھگوتی ہے<br />

نظم ننھی چڑیا ص<br />

14<br />

لفظوں کی<br />

مسکان <strong>اور</strong> خوش بو مالحظہ ہو ۔<br />

آبگینے سے زیادہ نازک لمحوں کے بیان کے لیے


لفظوں کا انتخاب آشا کو خوب خوب آتا ہے۔<br />

الئینیں مالحظہ ہوں ۔<br />

تمہاری آواز کی نم ی<br />

ہمیشہ کی طرح<br />

اس بار بھی گمراہ کر گئ ی<br />

میں اس موڑ پر ہوں<br />

جہاں سے واپس مڑ گئی تھ ی<br />

نظم تمہاری آواز کی نمی ص<br />

یہ ذرا<br />

91<br />

آشا محاکات کی<br />

تشکیل میں کمال رکھتی<br />

مثال ہیں۔<br />

حسب معمول<br />

اس بار بھی تم<br />

می رے چہرے کا<br />

اپنے ہاتھوں سے<br />

کٹورا سا بناؤ گے<br />

می رے لب چومو گے<br />

<strong>اور</strong> بھر دو گے می رے آنچل کو<br />

عہد و پی ماں کے جگنوؤں سے<br />

نظم میرے لب سلے ہیں ص<br />

91


آشا کے ہاں'‏ تشبیہات کا بالکل نئے طور <strong>اور</strong> نئی زبان<br />

کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ چند ایک مثالیں مالحظہ<br />

ہوں<br />

دل کے نہاں خانوں م یں<br />

تم موجود ہو<br />

آکاش میں شبد کی طرح<br />

نظم آکاش میں شبد<br />

9<br />

تمہارے سارے خی االت<br />

نیم خوابیدہ ہنسی کی طرح<br />

میرے ہونٹوں پر پھیل جائیں گ ے<br />

15 تنہائی ص<br />

شوخ لہر یں<br />

سرکشی کرتی ہی ں کناروں سے<br />

سانپ کے کینچل کی طرح<br />

نظم تمہارے جانے کے بعد ص<br />

11<br />

تمہاری<br />

نرم انگلیوں کا<br />

جی سے<br />

لمس مخملی


بند شیشوں سے باہر گرت ی<br />

مسلسل برف باری کا سلسلہ<br />

نظم ایک احساس ص<br />

<strong>اور</strong> سکھ<br />

معصوم بچے سا<br />

کونے می ں دبک کر<br />

سو گی ا ہے<br />

نظم ریت کی ندی<br />

15<br />

55<br />

تلمیح کا استعمال <strong>اور</strong> استعمال کی زبان'‏ مالحظہ ہو ۔<br />

ریت کی ندی بہتی ہے ۔۔۔۔۔<br />

گرم ریت میں پھنس گیا ہے کہ یں<br />

سوہنی کا گھڑا<br />

نظم ریت کی ندی ص<br />

55<br />

اٹھو<br />

ہاتھ بڑھاؤ<br />

<strong>اور</strong><br />

صلیب پر ٹنگے نصی ب کو اتار لو<br />

صلیب پر ٹنگے نصیب ص<br />

نظم 29


یشن<br />

مندر کی روشنی میں<br />

مسجد کی رو میں<br />

کی وں کہرا بڑھ رہا ہے<br />

کی وں کہرا چھا رہا ہے<br />

نظم سانپ کو پکڑ لو ص<br />

21<br />

بہت دن ہوئے<br />

جب یوکلپٹس کے پیڑوں کی طرح<br />

دن اگتا تھا<br />

نظم بہت دن ہوئے ص 11<br />

سماج کی عمومی چیزیں بھی'‏ استعمال میں التی ہیں<br />

<strong>اور</strong> یہ ہی'‏ اس کی نظم کے لسانی حسن کا سبب بنتی<br />

ہیں۔<br />

آٹا گوندھنے کے درمی ان<br />

نظم تمہاری یاد ص<br />

91<br />

........<br />

کھڑکیوں <strong>اور</strong> دروازوں کے مخملی<br />

پردے<br />

........


یگل<br />

ہانڈیوں می ں دانے<br />

اکیسویں صدی ص‎11‎‏-‏<br />

نظم 19<br />

.......<br />

ڈنڈے <strong>اور</strong><br />

بچوں کے ہجوم<br />

وقت پیرہن بدلتا ہے ص‎91‎‏-‏<br />

نظم 91<br />

.......<br />

چوپالوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی<br />

نظم گاؤں کا المیہ ص<br />

19<br />

راکھ<br />

آشا نے زبان کو مختلف نوعیت و حیثیت کے مرکب<br />

فراہم کیے ہیں۔ یہ اردو کی لسانی و فکری ثروت کا<br />

سبب بنے ہیں۔ مثال<br />

کرب گل ص<br />

نیم خوابیدہ ہنسی ص<br />

خرگوشی لمس ص<br />

مٹ ملی چاندنی ص<br />

من کا سناٹا ص<br />

لفظوں کا پل ص<br />

سکھ کا چل ص<br />

دہشت کے سائے ص<br />

54<br />

14<br />

11<br />

11<br />

55<br />

21<br />

55<br />

42


تلوار کے قلم ص<br />

موت کی دستک ص<br />

کہرے کی دیوار ص<br />

جھینگر کی جھنکار ص<br />

ریت کی ندی ص<br />

خیالوں میں اڑان ص<br />

21<br />

41<br />

41<br />

15<br />

55<br />

22<br />

آشا کی<br />

زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی فصیح وبلیغ ہے۔ مثال<br />

وقت پی رہن بدلتا ہے<br />

زخم بھر جاتےہیں ص<br />

41<br />

55<br />

آکاش نے<br />

اپنا پریچے کھو دی ا ہے<br />

وقت موک بنا<br />

ٹھگا سا دیکھتا رہ گیا ہے ص<br />

جو جتنا ماہر ہے<br />

اتنا بھوگتا ہے اسٹیج کا سکھ ص<br />

<strong>اور</strong> سپنے<br />

نی م وا آنکھوں سے<br />

52


چھلک پڑے ص‎51‎‏-‏ 59<br />

کوئی احساس<br />

کوئی درد تمہارےپیروں ک ی<br />

بیڑی نہیں بن سکا ص<br />

95<br />

میرے اندر چپ سی پڑی ص<br />

خیالوں میں اڈان بھرو گے ص<br />

میرا پچھتاوا مکھر ہو اٹھا ہے ص<br />

14<br />

22<br />

52<br />

آشا کے ہاں'‏ زبان <strong>اور</strong> زبان کا لب و لہجہ <strong>اور</strong> ذائقہ<br />

الگ پڑھنے کو ملتا ہے۔ غیر محسوس <strong>اور</strong> رونی میں'‏<br />

عالمتوں <strong>اور</strong> استعاروں کا'‏ استعمال متاثر کرتا ہے۔<br />

مثال<br />

توانائی کا بےکراں سمندر ص<br />

درد چلتا ہے دبے پاؤں ص<br />

ماں کی چھاتیوں کا سمندر ص<br />

لفظوں کا پل ٹوٹ گیا ص<br />

کہر کی دیواروں کے بچ ص<br />

12<br />

19<br />

19<br />

21<br />

41<br />

اس خاموشی<br />

کے شکنجہ م یں


فقط جان بہ لب تھا میرا ایمان ص 55<br />

آشا کے ہاں'‏ اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو<br />

ملتی ہیں'‏ ساتھ میں'‏ اس عہد کے شخص کے لیے<br />

‏.پیغام بھی ہے۔ باطور مثال ی ہ نظم مالحظہ ہو<br />

صلیب پر ٹنگے نص یب<br />

اٹھو<br />

ہاتھ بڑھاؤ<br />

<strong>اور</strong><br />

صلیب پر ٹنگے نصی ب کو اتار لو<br />

وہ بھی مضبوط ارادوں ک ی<br />

راہ دی کھتا ہے<br />

زندگی کو دان ک ی<br />

پیٹی مت دو<br />

کسی آدھے ادھورے<br />

مندر کی بنیاد پر رکھ ی<br />

دان کی پیٹی<br />

جس م یں<br />

مجبوری ی ا ڈر سے


ڈال جاتا ہے کوئ ی<br />

پانچ پیسے دس پی سے<br />

غرض آشا پربھات کی شاعری'‏ اپنے وجود میں'‏ فکری<br />

<strong>اور</strong> لسانی اعتبار سے'‏ قابل توجہ توانائی رکھتی ہے<br />

<strong>اور</strong> اسے نظر انداز کرنا'‏ مبنی برانصاف نہ ہو گا۔<br />

غژل چوں کہ نظم سے'‏ قطعی الگ صنف سخن ہے'‏<br />

اسی لیے اسے'‏ کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا<br />

ہے ۔

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!