کچھ اور ادب دریچے
کچھ اور ادب دریچے مقصود حسنی Kuch Aur Adab darichay Maqsood Hasni Kasur...Pakistan maqsood5@mail2world.com
کچھ اور ادب دریچے
مقصود حسنی
Kuch Aur Adab darichay
Maqsood Hasni
Kasur...Pakistan
maqsood5@mail2world.com
You also want an ePaper? Increase the reach of your titles
YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.
مندرجات<br />
کیا اردو مر رہی ہے<br />
ایک غیر اردو' اردو نواز کی تالش<br />
کالم قمر <strong>اور</strong> ریشہ حنا کے نثری حصے کا تعارفی<br />
مطالعہ<br />
فن تدوین' مباحث <strong>اور</strong> مسائل ۔۔۔۔۔۔ تعارفی جائزہ<br />
انسان <strong>اور</strong> انسانی رو یے<br />
ایک قدیم اردو شاعر کے کالم کا تعارفی و لسانی<br />
جائزہ<br />
مثنوی ماسٹر نرائن داس' ایک <strong>ادب</strong>ی جائزہ<br />
باراں ماہ غالم حضور شاہ<br />
آشا پربھات' مسکاتے' سلگتے <strong>اور</strong> بلکتے احساسات<br />
کی شاعر<br />
کیا اردو مر رہی<br />
ہے
کوئی بھی زبان مرتی نہیں' زندہ رہتی ہے۔ اس کی دو<br />
صورتیں ہ یں۔<br />
کسی زبان کا ایک شخص بھی زندہ ہے' تو جان<br />
رکھیے' وہ زبان زندہ ہے۔ کوئی شخص' کسی دوسری<br />
زبان کے عالقہ میں' پچاس برس جو نصف صدی<br />
ہوتے ہیں' رہ لے' وہ شعوری <strong>اور</strong> الشعوری سطعوں<br />
پر' وہاں کی زبان کا' نہ ہو سکے گا۔ حاالں کہ پورا دن<br />
اس کا واسطہ' اس زبان کے لوگوں سے رہے گا۔ وہاں<br />
کی کسی خاتون سے شادی ہو جانے کی صورت میں<br />
بھی' ان کا نہ ہو سکے گا۔ بچے اس سے پیار کرنے<br />
کے باوجود' اس کی زبان کے نہ ہو سکیں گے ۔<br />
وہ کسی زبان کا تنہا آدمی' اپنی ہی زبان میں سوچے<br />
گا۔ اپنی ہی زبان میں' ہر نوع کی یادوں سے رشتہ<br />
استوار رکھے گا۔ اب وہ بولے' لکھے <strong>اور</strong> پڑھے گا<br />
اس زبان میں' لیکن سوچے <strong>اور</strong> سمجھے گا' اپنی<br />
زبان میں۔ اس کا سوچ اس تک ہی محدود نہ رہے گا'<br />
ان حاالت میں' وہ اپنی زبان کے لوگوں کا نمائندہ ہو<br />
گا. اس کا سوچ' وہاں کی زبان پر' فکری <strong>اور</strong> لسانی<br />
حوالہ سے' اثر انداز ہو گا۔ وہ وہاں تنہا نہیں رہ رہا ہو<br />
گا' جو اس کا سوچ' اس تک محدود رہے گا۔ اس کا
سارا دن' بیسیوں طبقوں کے لوگوں میں گزرے گا۔ ان<br />
سے گفتگو <strong>اور</strong> لین دین رہے گا۔ اس کا سوچ' جو اس<br />
کی زبان میں ہو گا' بالواسطہ سہی' اس زبان کے<br />
لوگوں پر' فکری <strong>اور</strong> لسانی حوالہ سے اثر انداز ہوگا۔<br />
لکھنے کی صورت میں' بات' سونے پر سہاگے کے<br />
مترادف ہو گ ی۔<br />
اس شخص کے مر جانےکے بعد' اس کا سوچ' اس<br />
سماج <strong>اور</strong>اس سماج کی زبان میں' باطور بازگشت زندہ<br />
رہے گا۔ ب<strong>اور</strong> رہنا چاہیے' ہر زبان کا' اپنا ذاتی کلچر<br />
ہوتا ہے وہ کسی ناکسی حوالہ سے برقرار رہتا ہے۔<br />
یونانی' ایرانی' پرتگالی' ترکی' انگریز وغیرہ چلے<br />
گیے۔ امریکی انگریز کے عالوہ سب کی علم داری<br />
بھی ختم ہو گئی۔ اس کے باوجود ان زبانوں کے الفاظ<br />
آج بھی اس زبان میں مستعمل ہیں۔ مثال<br />
آخر عرب ی<br />
دیسی صورت آخر آنا بھی مستعمل ہے<br />
اسامی عرب ی<br />
واحد مستعمل ہے<br />
آباد فارس ی<br />
آبرو فارس ی
مرکب عزت آبرو<br />
آواز ترک ی<br />
مرکب اونچی آواز' بلند آواز' با آواز بلند<br />
باجی ترک ی<br />
مرکب باجی جان<br />
جان عربی' فارس ی<br />
جان پنجابی میں احترام کا الحقہ' اس کی روح میں<br />
فارسی مفہوم موجود ہے ۔<br />
جاپانی میں مترادف سان ہے ۔<br />
مرکب باجی جان<br />
ایلچی ترک ی<br />
مرکب شاہ کا ایلچ ی<br />
اسرائیل عبران ی<br />
انجیل عبران ی<br />
اسوخودوس یونان ی<br />
مرکب جوارش اسوخودوس<br />
طلسم یونان ی<br />
مرکب طلسم ہوشربا<br />
انگریزی کے بےشمار لفظ اس زبان میں مستعمل ہ یں۔<br />
ان زبانوں سے متعلق لوگ کب کے جا چکے ہیں لیکن<br />
ان کی زبان کے لفظ یہاں کی زبانوں میں مستعمل ہ یں۔
یکئ<br />
<strong>کچھ</strong> لفظوں کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ اردو میں<br />
مختلف زبانوں کے لفظ دیکھ کر' اسے مختلف زبانوں<br />
کے لوگوں کے ملنے کو' وجہءتشکیل قرار دیا گیا۔<br />
اردو مختلف زبانوں کے لوگوں کے ملنے سے وجود<br />
میں نہیں آئی <strong>اور</strong> ناہی اس طور سے' زبانیں وجود<br />
حاصل کرتی ہیں۔ اردو تو آل ہند کی زبان رہی ہے۔ اس<br />
کا حلقہ' پورا برصغیر رہا ہے۔ اسے کئی نام <strong>اور</strong> رسم<br />
الخط ملتے آئے ہیں۔ غالب کے ہاں اس کا نام ریختہ<br />
ہے.....اظہار دمحمی' منظور دمحمی۔۔۔۔ فقیر فضل حق تاجر<br />
کتب ابن حاجی مولوی عالؤالدین مرحوم' ساکن پتوکی<br />
نوآباد ضلع الہور' جب پتوکی بنا' اس وقت شائع ہوئی۔<br />
اس کا تعلق انگریز عہد ہی سے ہے <strong>اور</strong> یہ یقینا غالب<br />
کے بعد کی بات ہے. اس مختصر سی شعری کتاب کے<br />
صفحہ گیارہ پر' موجود کالم کو ریختہ کہا گیا ہے۔ گویا<br />
یہ نام' تاریخ کے کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے۔<br />
ریختہ کے عالوہ بھی' نام ریکارڈ میں ملتے ہ یں۔<br />
ویدوں میں' اس زبان کے لفظ موجود ہیں۔ بہت سے<br />
آثار قدیمہ برباد ہو گیے یا کر دیے گیے' جو محفوظ<br />
رہے' ان میں سے جو کتبے ملے' ان کا رسم الخط
پڑھا نہیں جا سکا۔ یہ تو بڑی پرانی بات ہے' اردو کا<br />
رومن رسم الخط صرف انگریزی جاننے والوں کے<br />
لیے' کارآمد ہے' دوسرے اسے پڑھ نہیں سکتے۔ یہ<br />
ہی صورت دیوناگری والوں کے لیے اردو' جب کہ<br />
اردو والوں کے لیے دیوناگری کی ہے۔ آج یہ تین رسم<br />
الخط رکھنے والی زبان ہے۔ کیسے مر جائے گی۔ یہ<br />
ہزاروں سال سے زندہ ہے' <strong>اور</strong> زندہ رہے گ ی۔<br />
ان شاءهللا<br />
اردو رسم الخط سے وابستہ یہ قدیمی زبان' اپنا وجود<br />
مستحکم کر چکی ہے۔ میں بات تحریری صورت کی کر<br />
رہا ہوں۔ بولے جانے کے حوالہ سے بات اس سے<br />
الگ تر ہے۔ دنیا کا ایسا کون سا عالقہ ہے' جہاں یہ<br />
بولی <strong>اور</strong> سمجھی نہیں جاتی۔ کنیڈا' امریکہ یہاں تک<br />
کہ برطانیہ میں اس زبان کو بولنے <strong>اور</strong> سمجھنے<br />
والے' بلکہ شعر و نثر لکھنے <strong>اور</strong> تحقیقی و تنقیدی<br />
کام کرنے والے' میری بات کی تصدیق کریں گے ۔<br />
مکرمی<br />
حسنی صاحب:<br />
سالم مسنون<br />
آپ کا مضمون نہایت دلچسپ <strong>اور</strong> علم افروز ہے۔<br />
اردو
کے ہر دوست کے دل میں اس کو پڑھ کر اردو کے<br />
بارے میں سوچنے <strong>اور</strong> سمجھنے <strong>اور</strong> کام کرنے کا<br />
جذبہ بلند ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اہل<br />
اردو ایک عجیب وغریب عشق میں مبتال ہو کر رہ<br />
گئے ہیں <strong>اور</strong> وہ ہے غزل گوئی کا عشق۔ اردومحفلوں<br />
کا ذکر کیا کریں جہاں بھی جائیے صرف غزلگوئی پر<br />
لوگ جان دئے دے رہے ہیں <strong>اور</strong> لطف کی بات یہ ہے<br />
کہ یہ غزل نہ صرف بلند معیار کی نہیں ہے<br />
ماشاهللا( بلکہ نری تک بندی کے سوا <strong>اور</strong> <strong>کچھ</strong> بھی<br />
نہیں ہے۔ کوئی رسالہ اٹھا کردیکھ لیں، فیس بک پر<br />
چلے جائیں، غزلوں کے شائع ہونے والے مجموعے<br />
دیکھ لیجئے،ہر جگہ آپ کو ایک ہی صورت نظر آئے<br />
گی۔ اردو انجمن میں بھی نظم، افسانہ، مقاالت وغیرہ<br />
سب کے لئے مناسب ابواب قائم کئے گئے ہیں <strong>اور</strong><br />
باربار میں اہل انجمن سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ<br />
نثر نگاری کی جانب توجہ دیں لیکن ہر بار میری<br />
گزارش صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ<br />
لوگ آپ کے یا کسی <strong>اور</strong> کے یہاں لگائے ہوئے<br />
نثرپاروں کو پڑھتے تک نہیں ہیں <strong>اور</strong> اگر پڑھتے ہیں<br />
تو <strong>کچھ</strong> لکھتے نہیں ہ یں۔<br />
( الا
یعن<br />
میں آپ سے متفق ہوں کہ اردو مرے گی نہیں البتہ<br />
ایک تو وہ کمزورہوجائے گی )بلکہ ہو رہی ہے( <strong>اور</strong><br />
دوسرے دنیا کی زبانوں میں اس کوجو مقام ملنا<br />
چاہئے وہ اہل اردو کی سہل انگاری <strong>اور</strong> غیرذمہ دارانہ<br />
روش سے نہیں مل سکے گا۔ ہندوستان کو کہہ لیجئے<br />
کہ وہاں کی حکومت <strong>اور</strong> عوام سیاست <strong>اور</strong> تعصب کی<br />
بنا پر اردو کے خالف ہیں )ویسے شاید سب کو یہ<br />
معلوم ہو کرحیرت ہوگی کہ دو ہندوستانی ریاستوں<br />
ی صوبوں میں اردو کو ہندی کے ساتھ دوسری<br />
سرکاری زبان مان لیا گیا ہے <strong>اور</strong> تقریبا ہر ریاست<br />
سے اردو کا ایک رسالہ سرکاری سرپرستی میں شائع<br />
ہوتا ہے!( لیکن پاکستان کو دیکھ لیں جہاں اردو قومی<br />
زبان کہالتی ہے لیکن سرکاری زبان انگریزی ہے۔<br />
سبحان هللا منافقت ہو تو ایسی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ<br />
وہاں جس قسم کی زبان لکھی <strong>اور</strong> بولی جارہی ہے وہ<br />
اردو تو نہیں ہے البتہ اردو<strong>اور</strong> انگریزی کی کھچڑی<br />
ضرور ہے۔ پڑھ کا افسوس ہوتا ہے لیکن <strong>کچھ</strong> کیا نہیں<br />
جا سکتا ۔<br />
میرے نزدیک اردو کے زندہ رہنے میں دو اسباب بہت<br />
معاون ہیں <strong>اور</strong> رہیں گے۔ایک تو ہندوستانی فلمیں جن<br />
کو سرکاری طور پر ہندی کہا جاتا ہے لیکن ان کی
زبان سراسر عام <strong>اور</strong> آسان )<strong>اور</strong> بعض اوقات <strong>ادب</strong>ی(<br />
اردو ہوتی ہے۔ اگر ہندی میں فلمیں بنائی جائیں تو<br />
ٹھپ ہو جائیں۔ اسی طرح ہندوستان کے ہندی<br />
اخبارجس کثرت سے اردو <strong>اور</strong> فارسی کے الفاظ<br />
استعمال کر رہے ہیں وہ حیرت ناک ہے۔ اردو کے زندہ<br />
رہنے کا دوسرا سبب غزل کی مقبولیت ہے۔ ہندوستان<br />
میں غزل اردو کے عالوہ ہندی، گجراتی، بنگالی،<br />
تیلگو، مراٹھی، پنجابی، اڑیا وغیرہ زبانوں میں لکھی<br />
جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگالی کے عالوہ<br />
کسی <strong>اور</strong> زبان میں شاعری اتنی ترقی یافتہ <strong>اور</strong> ہر دل<br />
عزیز نہیں ہے۔ غزل سے کم سے کم یہ فائدہ تو<br />
ضرور ہوا ہے ۔<br />
زبانیں وقت کے ساتھ ہمیشہ بدلتی ہیں۔ مقامی اثرات<br />
سے بھی یہ بچ نہیں سکتی ہیں <strong>اور</strong> عالقائی زبانیں<br />
بھی ان پر اثر کرتی ہیں ۔اس میں کوئی برائی نہیں<br />
ہے۔ اس عمل سے زبان ترقی ہی کر سکتی ہے<br />
بشرطیکہ اس میں دوراندیشی کو مدنظر رکھا جائے۔<br />
آپ کے مضمون کا دلی شکریہ۔ هللا آپ کو سالمت<br />
رکھے ۔
سرور عالم راز<br />
bohat hi mohtaram janab raz sahib<br />
aap mairi na'cheez tehriroon ko<br />
tovajo se parhtay hain is ke liay<br />
ehsan'mand hoon. Allah aap ko<br />
salamat rakhe. mein ne idhar odhar<br />
yahhi daikha hai very nice, bohat<br />
khoob. itna acha likhnay par daad<br />
qabool farmaei. is qisam ka jawabi<br />
tabsra hota hai. is noeat ke tabsaray<br />
se koee faeda nahain hota. munfi ya<br />
mosbat tehreer par baat to honi<br />
chahiay ta'kah mazeed ke darwazay<br />
khul sakain. warna is qisman ki daad<br />
ka koee faeda nahain hota. daad lay<br />
kar kya karna hota hai baat ko agay<br />
bharna chahiay. asal zarorat yah hi<br />
hai. maire liay aap ka likha hi kafi<br />
hota hai. dil khool kar baat to kartay
یات<br />
hain. maza aa jata hai.<br />
achi baat hai, ahbaab ghazal hi<br />
likhain, laikin fikr ko aaj ki shahadat<br />
ke sath sath zoban ko bhi kuch<br />
dastyaab hotay rehna chahiay.<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/i<br />
ndex.php?topic=9874.0<br />
ایک غیر اردو'<br />
اردو نواز کی<br />
تال ش<br />
زبان کوئی بھی ہو' اس سے تعلق رشتہ استوار ہونا<br />
برا نہیں۔ اظہار کے لیے' کسی بھی زبان کا استعمال<br />
میں النا' عیب نہیں۔ اس کے لیے کسی زبان' خصوصا<br />
اپنی زبان میں' نقائص ہی نقائص دیکھائی دینا' اچھی<br />
<strong>اور</strong> صحت مند بات نہیں۔ جب آپ کسی زبان کی وسعت<br />
<strong>اور</strong> اظہاری صالحیت سے آگاہ نہیں ہیں' تو اچھی یا<br />
بری رائے دینے کا' آپ کو حق حاصل نہیں۔ دوسری<br />
بات یہ کہ' زبانوں کا لسانی <strong>اور</strong> اظہاری موازناتی<br />
مطالعہ' ابھی تک ہوا ہی نہیں' تو کسی قسم کی رائے<br />
دینے کا جواز ہی نہیں اٹھتا ۔
<strong>ادب</strong>ی ذخیرے کے حوالہ سے' جرمن' فرانسیسی' چینی'<br />
جاپانی یا پھر روسی وغیرہ کب پیچھے ہیں۔ پہلے<br />
موازناتی مطالعہ ہونا چاہیے۔ نتائج کی حصولی کے بعد<br />
ہی' کسی زبان کو' زبانوں کی ماسی بنانا' مبنی بر<br />
انصاف ہوکا ۔<br />
اردو' نام کے حوالہ سے کل پرسوں کی زبان ہے۔ ذرا<br />
اس کے اندر جا کر دیکھیے سورگ لوک کیا' اندر<br />
لوک' برہما لوک ہی نہیں' یم لوک بھی اپنے کامل<br />
جوبن کے ساتھ دکھائی دے گا ۔<br />
مجنوں کا کوئی کی ا حال پوچھے<br />
ہر گھر صحرا کا نقشا ہے<br />
..........<br />
چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لی کن<br />
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھ ی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائت یں<br />
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گ یے<br />
..........
اردو کہہ لیں ہندی' ہندوستانی' ہندوی کہہ لیں' ریختہ<br />
نام دے دیں' آل ہند کی شروع سے زبان رہی ہے۔ یہ<br />
کسی ناکسی حوالہ سے' پورے برصغیر کے لوگوں<br />
کے استعمال میں رہی ہے۔ اس کے رسم الخط بدلتے<br />
آئے ہیں۔ اس کے ہر قسم کے تحریری ریکارڈ میں ہر<br />
زبان بولنے والوں کا حصہ رہا ہے۔ اسے سمجھنے<br />
کی سکل رکھنے والوں نے بھی' اسے نظر انداز نہیں<br />
کیا۔ وہ بھی باقدر ضرورت' لطف لیتے آئے ہیں۔ بعض<br />
معامالت میں متاثر بھی ہوئے ہیں۔ شعر و <strong>ادب</strong> کا<br />
ذخیرہ دیکھ لیں' ہر زبان بولنے والے نے' اپنی مادری<br />
زبان کو چھوڑ کر' اپنا حصہ ڈاال ہے۔ یقینا یہ بہت بڑی<br />
بات ہے۔ اس سے بڑی بات ایک <strong>اور</strong> بھی ہے' برصغیر<br />
سے باہر کے لوگ بھی' اس میں اپنا حصہ ڈالتے آئے<br />
ہیں۔ اس زبان کے بارے میں' اس قسم کی رائے<br />
رکھتے آئے ہ یں۔<br />
اس زبان کی سحر آفرینی' شریں بی یان<br />
اندوزی نے گرویدہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔<br />
ریشہءحنا ص<br />
4<br />
<strong>اور</strong> لطف
یہ الفاظ ایک غیر برصغیری کے ہیں۔ ایک ہم ہیں' جو<br />
اس زبان سے متعلق ہیں' اس زبان کی پیٹھ ٹھوک<br />
رہے ہیں <strong>اور</strong> انگریزی کی' جو لسانی اعتبار سے کم<br />
زور ترین ہے' کی ریکٹم چوسائی میں ترقی <strong>اور</strong> فالح<br />
سمجھتے ہ یں۔<br />
اردو کے استعمال کرنے والے' اس قسم کی بات کرنے<br />
والے' اردو محسنوں کے نام تک سے آگاہ نہیں ہوں<br />
گے۔ تحقیقی کام بھی' اپنا یا اپنی ٹاہنی کا بندہ ہے'<br />
کے حوالہ سے ہو رہے ہیں ۔ یا ہوا ہے۔ یہ بات محض<br />
رائےتک ہی محدود نہیں' بات آگے بھی بڑھتی ہے۔<br />
مالحظہ ہو<br />
میں نے اردو میں مہارت تامہ بہم پہنچائی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں<br />
تک کہ شعر کہنے لگی <strong>اور</strong> الہور کے بعض مشاعروں<br />
میں بھی شرکت ک ی۔<br />
ریشہءحنا ص<br />
4<br />
گویا زیر حوالہ شخصیت' صرف نثر سے متعلق ہی<br />
نہیں تھی' اردو میں شعر بھی کہتی تھی۔ میں شیریں<br />
زاد بہنام کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کا تعلق
تہران' ایران سے تھا <strong>اور</strong> یہاں خانہءفرہنگ ایران<br />
سے وابستہ تھیں۔ اردو شاعری سے دل چسپی ہونے<br />
کے سبب' ان کا یہاں کے اردو شعرا سے واسطہ رہتا۔<br />
ان سے شعر و<strong>ادب</strong> سے متلعلق تبادلہءخیال ہوتا۔ اس<br />
بات کا انہوں نے دیباچے میں تذکرہ بھی کیا ہے ۔<br />
اردو شعر کے حوالہ سے' انہوں نے کیا خوب صررت<br />
بات لکھی ہے' لکھتی ہیں۔<br />
اردو شعر میں وہ سارے لوازمات پائے جاتے ہیں جو<br />
فارسی شعر کا خاصہ ہیں۔....... گویا اردو <strong>اور</strong> فارسی<br />
یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہ یں۔<br />
ریشہء حنا ص<br />
11<br />
'<br />
پیش نظر شیریں زاد بہنام کی نثر' بڑے پائے کی نثر<br />
ہے۔ ان کے کام کو جمع ہونا چاہیے تھا۔ اردو والے<br />
اس جانب توجہ دیتے خانہ فرہنگ ایران یا ان کے<br />
گھر والے ضرور تعاون کرتے۔ یہ ماننے کی بات نہیں<br />
کہ سب <strong>کچھ</strong> ضائع ہو گیا۔ رف پرزے وغیرہ تالش<br />
کرنے پر' مل ہی جائیں گے۔ قمر نقوی صاحب کے<br />
ذخیرہ میں <strong>کچھ</strong> نا<strong>کچھ</strong> تو ضرور ہو گا۔ خطوط' رقعے'
یاد داشتیں وغیرہ مل سکتی ہیں۔ ان سے ملنے والے<br />
بہت سے' شاعر بھی تھے۔ وہ شعرا کا کالم صرف<br />
سنتی ہی نہیں' سناتی بھی ہوں گی۔ ان کے ساتھ خط و<br />
کتابت بھی کرتی ہوں گی۔ ایک ایک قطرے سے دریا<br />
بن جائے گا۔ قمر نقوی صاحب سے' ان کے تعلقات<br />
تھے' انہیں اس کام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یقین<br />
ہے وہ اس ذیل میں' تررد فرما کر اردو نوازی کا ثبوت<br />
بہم فرمائیں گے ۔<br />
کالم قمر <strong>اور</strong> ری شہ حنا<br />
کے<br />
نثری حصے کا تعارفی مطالعہ<br />
عابد انصاری صاحب نے' نہایت مہربانی فرماتے<br />
ہوئے' قمر نقوی صاحب کا مجموعہءکالم۔۔۔۔۔۔کالم<br />
قمر۔۔۔۔۔۔ عطا فرمایا۔ یہ قمر نقوی صاحب نے' عابد<br />
انصاری صاحب کو' اپنے دستخطوں سے نومبر<br />
کو عطا کیا تھا/ عابد انصاری میرے بہت ہی<br />
اچھے دوستوں میں سے تھے۔ گاہے اپنا تازہ کالم<br />
عطا فرماتے رہتے تھے <strong>اور</strong> میں اس سے' لطف لیتا<br />
رہتا تھا۔ بعد ازاں قمر صاحب نے' مجھ ناچیز کو<br />
11<br />
1991
باطور خاص۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔ عنایت فرمایا۔ اسی طرح<br />
نظم۔۔۔۔۔ ماثورہ۔۔۔۔۔۔ ہاتھ لگی۔ ان کے کالم پر دوسرے<br />
وقت میں کالم کروں گا۔ سردست <strong>کچھ</strong> <strong>اور</strong> باتیں' جو<br />
انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں' عرض کرنے کی<br />
جسارت کر رہا ہوں ۔<br />
ٹائیٹل پیج کی پشت پر قمر نقوی صاحب کا تعارف<br />
:درج ہے<br />
سید حسن قمر<br />
نام:<br />
نقو ی<br />
الہور<br />
وطن اجداد:<br />
میراں سید دمحم شاہ<br />
جد امجد:<br />
رح<br />
موج دریا نقوی بخار ی<br />
میراں سید جالل<br />
مورث اعلی:<br />
الد ین<br />
جہانی اں جہاں گشت<br />
اچھ شر یف<br />
وطن مالوف: آسی ون ضلغ اناؤ<br />
بھوپال<br />
پیدائش:<br />
تاریخ پیددائش:<br />
1991
تعلیم:<br />
ایم بی<br />
ادیب<br />
رکن:<br />
اے<br />
فاضل<br />
ایم اے تار یخ<br />
برٹش انسٹی<br />
ٹی وٹ<br />
نارتھ<br />
قیام:<br />
می نجمنٹ<br />
امری کن ہنٹگ کلب<br />
ٹلمسا۔ اوکال ہوما۔<br />
اے<br />
یؤ ایس<br />
سیاست میں حصہ لینے سے پہلے' مولوی فضل<br />
الرحمن المعروف کوثر نیازی کو عالم دین' استاد'<br />
شاعر' ادیب' خطیب' مفسر' <strong>اور</strong> مقرر جانتا تھا۔<br />
سیاست میں آنے کے بعد' وہ مولوی وسکی معروف<br />
ہوئے۔ خدا لگتی یہ ہی ہے' کہ میں نہیں جانتا کہ<br />
وسکی سے ان کی کس حد تک جان پہچان تھی یا تھی<br />
بھی نہیں' ہاں البتہ کالم قمر کو دیکھنے کے بعد' ان<br />
کے تین <strong>اور</strong> شخصی پہلو سامنے آئے ہ یں۔
انہوں نے کتاب کا انتساب' قمر نقوی کے نام کیا ہے۔<br />
:انتساب کی عبارت <strong>کچھ</strong> ی وں ہے<br />
استاد محترم عالمہ حضرت قمر نقوی مدظلہ العالی کے<br />
نام<br />
گویا وہ حضرت قمر نقوی سے استفادہ کرتے تھے ۔<br />
وہ صوفی بھی تھے۔ جیسا کہ انتساب کے آخر میں<br />
:در ج ہے<br />
حقیر فقیر صوفی فضل الرحمن کوثر نیاز ی<br />
قمر نقوی بھی انہیں صوفی صاحب کہہ کر ہی ذکر<br />
کرتے ہیں۔ اس ذیل میں قمر نقوی نے بڑے ہی واضح<br />
الفاظ میں کہا ہے ۔<br />
ان کے تصوف <strong>اور</strong> معرفت کے حوالے سے بھی گفتگو<br />
ضروری ہے کہ ان کی شخصیت بالخصوص ذات<br />
عرفان کی آئینہ دار ہے <strong>اور</strong> ان کی ذات بابرکات<br />
کا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ درخشندہ پہلو ہے۔ امریکہ میں رہ کر مذہب<br />
کی اقدار <strong>اور</strong>احکام کی حفاظت <strong>اور</strong> اصول شرعیہ کی<br />
مدامت کے ساتھ ایمان کی شمع روشن رکھنا' هللا
تبارک تعالی <strong>اور</strong> رسول ملسو ہلص کی محبت کو قائم رکھنا سب<br />
جہاد ہی ہے <strong>اور</strong> صوفی صاحب شب و روز اس جہاد<br />
میں مصروف ہ یں۔<br />
کالم قمر ص:<br />
99<br />
وہ بڑے اچھے مصور بھی تھے ۔<br />
انتساب میں ہی چند مزید چیزوں کا انکشاف موجود<br />
ہے ۔<br />
ٹکساس میں بزم اردو' پچھلے دس برس سے' اردو<br />
کی خدمت کر رہی تھ ی۔<br />
بزم کے 91ویں عظیم الشان مشاعرے میں' کوثر<br />
نیازی کی تصاویر کی نمائش ہوئی <strong>اور</strong> ان کے کام کو<br />
سراہا گ یا۔<br />
بزم اردو کے سرپرستوں میں' حضرت مجید جامی'<br />
جناب عرفان علی' جناب سید الیاس جناب سرور عالم<br />
راز' جناب شوکت قادری' جناب ڈاکٹر نرمل سنگھ'<br />
جناب نادر درانی جناب ابوطالب ایسے جید لوگ شامل<br />
تھے ۔<br />
'<br />
جناب سرور عالم راز کے نام پر'<br />
مجھے رکنا پڑا۔
موصوف عرصہ سے اردو انجمن چال کر' اردو<br />
شعرو<strong>ادب</strong> کی خدمت کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اس<br />
باوقار انجمن سے' میرا تعلق چال آتا ہے <strong>اور</strong> میں بھی'<br />
اپنی ناچیز تحریریں اردو انجمن پر رکھ رہا ہوں۔ جناب<br />
سرور عالم راز کا نام پڑھ کر' دل چسپی بڑھنا فطری<br />
سی بات تھ ی۔<br />
قمر نقوی شعر کہنے کے حوالہ سے باظاہر عجیب<br />
لیکن حقیقت میں جو ہے واضح الفاظ میں کہتے ہیں۔<br />
یقینا اسے ہی آمد کا نام دیا جاتا ہے۔ لکھتے ہ یں<br />
میرے کالم کی تخلیق' میرے ارادے یا کوشش کی<br />
مرہون منت نہیں۔ جو بھی کالم وجود میں آتا ہے وہ<br />
الہام کی شکل میں ہوتا ہے <strong>اور</strong> خود باخود هللا تعالی<br />
کی طرف سے میرے ذہن میں پیدا ہونے لگتا ہے۔ جب<br />
بھی کوئی کالم وارد ہونے کو ہوتا ہے تب مجھے اس<br />
کا احساس ہو جاتا ہے۔ طبعت میں ایک قسم کی بے<br />
چینی <strong>اور</strong> توجہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے<br />
5 کالم قمر ص
یگئ<br />
یہ انہوں نے سو فی صد درست بات کہی ہے۔ میں<br />
چاہوں یا مجھے کہا جائے' ایک نظم لکھ کر دو۔ سارا<br />
دن بیٹھا رہوں' ایک سطر بھی نہیں لکھ پاتا ۔<br />
ایک انہوں نے عجیب بات کہی ہے ۔<br />
کسی رات خواب میں غزل آنا شروع ہو جاتی ہے۔<br />
کبھی دو چار شعر ۔۔۔۔۔۔۔<br />
پڑھنے لکھنے والے' رات کو قلم کاغذ قریب رکھتے<br />
ہیں۔ جاگتے میں بھی آئیڈیا آ سکتا ہے۔ خواب صبح<br />
تک یاد میں رہیں' ضروری نہ یں۔<br />
قمر نقوی کی<br />
فراہم کی<br />
اردو سے محبت' جذباتی وابستگی <strong>اور</strong><br />
معلومات دل کو سکون <strong>اور</strong> روح کو<br />
طمانیت بخشتی ہیں۔<br />
اردو کے بارے میں شکوک کا ایک طویل سلسلہ چل<br />
نکال ہے۔ نجانے کیوں ہر کہہ و مہہ کو یہ فکر الحق<br />
ہو گئی ہے۔ اگرچہ اردو کو بچثیت زبان کوئی خطرہ<br />
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong>۔۔۔۔۔۔ انشاءهللا۔۔۔۔۔ زندہ رہے گی۔۔۔۔۔۔اس کی<br />
حیات جاوداں کا ایک <strong>اور</strong> ثبوت تو یہ ہے کہ امریکہ
۔۔۔۔۔۔۔ی یعن ممالک متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی آف<br />
منے سوٹا میں اردو زبان کا شعبہ قائم ہو گیا ہے<br />
جہاں اردو کی ابتدائی تعلیم سے انتہائی تعلیم تک<br />
حاصل کرنے کا انتظام ہے۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> طالب علموں کی<br />
ایک مناسب تعداد اردو زبان سیکھنے میں مشغول<br />
ہے۔۔۔۔۔۔ ایک <strong>اور</strong> یونیورسٹی میں بھی اردو کے<br />
شعبے کا عنقریب فیصلہ ہونے کو ہے انشاءهللا ۔<br />
1 ص۔<br />
قمر نقوی' نثری نظم کے سلسلہ میں' کافی سنجیدہ<br />
نظر آتے ہیں۔ اس صنف شعر پر' انہوں نے کھل کر<br />
بحث کی ہے۔ یہ ہی نہیں' اس صنف شعر سے' ذاتی<br />
وابستگی کے بالتکلف اشارے ملتے ہیں۔ لکھتے ہ یں۔<br />
نثری نظم کا مستقبل تابناک محسوس ہوتا ہے <strong>اور</strong> اس<br />
کو یقینا نظم کی صنف میں ممتاز مقام حاصل ہوگیا<br />
ہے۔۔۔۔ ابھی اس کے کمال کا لمحہ نہیں آیا۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> شادد<br />
اس مقام پر پپہنچنے کے لئے اس صنف کو ان مراحل<br />
سے گزرنا ہو گا جن کے بعد منزل مراد کی حدود کا<br />
.آغاز ہوتا ہے<br />
ص 14
ایک دوسری<br />
جگہ پر لکھتے ہ یں۔<br />
اگر اس کو نظم کے قبیلے میں رکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ<br />
واقعی اس صنف کا تقاضا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو اس کی نظمیت<br />
کو برقرار رکھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔ <strong>اور</strong> نظمیت کا قیام اسی<br />
وقت ممکن ہے جب اس میں شعریت کا وجود ہو ۔۔۔۔۔<br />
بڑی ہی معقول بات ہے۔ شعریت سے عاری چیز' نظم<br />
کی حدود سے باہر رہتی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہ<br />
. یں<br />
شعریت صرف <strong>اور</strong> صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہے<br />
جب اس میں ترنم' تبسم <strong>اور</strong> وزن قائم رکھا جائے گا ۔<br />
15 ص<br />
ترنم <strong>اور</strong> تبسم تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ وزن<br />
والی بات' سمجھ سے باہر ہے۔ وزن کی صورت میں'<br />
اسے نثری نظم کیوں کہا جائے گا۔ وزن دانستگی سے<br />
وابستہ ہے۔ دانستگی الہامی کیفیت سے' باہر کی چیز<br />
ہے۔ وزن <strong>اور</strong> بعض مروجہ اطوار فکر کا گال گھونٹ<br />
دیتے ہ یں۔
مرا پیغمبر عظی م تر<br />
کسی بھی صورت میں گوارا نہیں۔ یہ گستاخی <strong>اور</strong><br />
بے<strong>ادب</strong>ی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعر <strong>اور</strong> نثر کے<br />
شعر میں یہ امتیازات وزن سے الگ <strong>اور</strong> ہٹ کر ہ یں۔<br />
امور موجود ہوتے ہ یں۔<br />
فکری <strong>اور</strong>صوتی آہنگ<br />
تبسم<br />
چنچل پننا<br />
حسن شعرہا کا التزام۔ تشبیہ' استعارہ' عالمتیں'<br />
تلمیحات <strong>اور</strong>شعری صنعتوں کا فطری اہتمام<br />
شعر<br />
کم لفظوں میں بہت زیادہ کہہ دی ا جاتا ہے<br />
کوملتا' ریشمیت' نزاکت' والہانہ پن وغی رہ<br />
غنا<br />
لفظوں کی نشت و برخواست نثر سے قطعی ہٹ کر <strong>اور</strong><br />
الگ تر<br />
میں اپنے کہے کی سند میں فقط ایک مثال پیش کرنے<br />
کی جسارت کرتا ہوں ۔<br />
poetic یت
یرہ<br />
اگر یہ شاعری نہیں تو نثر بھی نہیں ہے ۔<br />
دی کھ کے چاند مرے آنگن کا<br />
جانے کیوں پھی کا پڑ جائے<br />
چنچل روپ بہاروں کا<br />
قمر نقوی نے آخر میں اس صنف شعر سے خصوصی<br />
متعلق ہونے کے حوالہ سے کہا ہے ۔<br />
میں بتدر یج<br />
ان قواعد و ضوابط کے اختراع <strong>اور</strong> تنظیم کے کام میں<br />
مشغول ہوں <strong>اور</strong> ممکن ہے <strong>کچھ</strong> دن بعد میں کوئی ایسا<br />
فن اختراع میں کامیاب ہو جاؤں جو فن عروض کا<br />
مماثل ہو کر نثری نظموں کی پاسبانی کر سکے ۔<br />
12 ص<br />
اس ذیل میں کیا پیش رفت ہوئی' میں آگاہ نہیں ہوں۔<br />
اگر کسی صاحب کو آگاہی ہو' تو ضرور قلم اٹھائے۔<br />
جو بھی سہی شاعری کی کوئی بھی صنف <strong>اور</strong> صورت<br />
ہو' یہ طے ہے' کہ پرلطف شاعری ایک خودکار<br />
عمل ہے ۔
....<br />
کالم قمر میں قمر نقوی کا مقالہ۔۔۔۔۔ تیسرا زاویہ۔۔۔۔۔<br />
معلومات <strong>اور</strong> یادوں کا اچھا خاصا ذخیرہ رکھتا ہے۔<br />
اس میں اختر حسین شیخ کی تحریر کا ذکر آیا ہے<br />
جانے ان کی تحریر کیوں کتاب میں شامل نہیں ہو<br />
سک ی۔<br />
اس میں ان حضرات سے متعلق یادوں کا ذکر ملتا ہے ۔<br />
اقبال راہ ی<br />
بلقیس فاطمہ نقو ی<br />
سردار جگنور سنگھ<br />
حاجی ملک مقبول<br />
شاہد واسط ی<br />
شری ن زاد بہنام<br />
ظفر علی راجہ<br />
عابد انصار ی<br />
فخرالدی ن بلے<br />
محسن بھوپال ی<br />
مرتضی برالس<br />
پروفیسر ی وسف جمال
۔۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔۔ میں دو مقالے شامل ہیں۔ پہال مقالہ<br />
محترمہ شرین زاد بہنام کا ہے' جب کہ دوسرا مقالہ<br />
جناب قمر نقوی کا ہے۔ محترمہ شرین زاد بہنام کے<br />
مقالے پر' کسی دوسرے وقت میں' گفتگو کروں گا.<br />
سردست قمر نقوی صاحب کے مقالے سے متعلق' <strong>کچھ</strong><br />
.عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں<br />
مادہ پرستی تو ہر دور کی ریتا ہے <strong>اور</strong> یہ بھی' آج<br />
<strong>کچھ</strong> کم نہیں۔ اس بےحسی کے عالم میں بھی' حسن و<br />
عشق کی اہمیت اپنی جگہ پر قایم رہی ہے۔ آج غم<br />
جاناں پر' غم روزگار کو اہمیت دینے کا نعرہ بلند کیا<br />
جا رہا ہے۔ زبانی کالمی تو یہ ٹھیک ہے <strong>اور</strong> اس کی<br />
حمایت بھی کی جانی چاہیے۔ کہنا <strong>اور</strong> کرن'ا دو الگ<br />
چیزیں ہیں' لہذا اسے عملی جامہ پہنانا امکان میں ہی<br />
نہیں۔ غم جاناں کی آڑ میں' عصری کرب کا بھی اظہار<br />
ہوتا آیا ہے۔ ظفر کا یہ شعر' کے تناظر میں<br />
دیکھیے' معنویت ظاہر سے یکسر ہٹ کر سامنے آئے<br />
گ ی۔<br />
1554<br />
چشم قاتل تھی<br />
جیسی اب ہو گئی<br />
مری دشمن ہمیشہ لی کن<br />
قاتل کبھی ایسی تو نہ تھ ی
قمر نقوی نے اس مدے پر ہی بحث کی ہے <strong>اور</strong> ان کا<br />
موقف <strong>اور</strong> انداز بڑا جان دار ہے۔ ان کا یہ جملہ<br />
دیکھیے کتنا باوزن ہے ۔<br />
حقیقت یہ ہے کہ حسرتوں آرزوں تمناؤں مرادوں <strong>اور</strong><br />
خوابوں کا کوئی مقررہ دور نہیں ہوا کرتا' اس لئے کہ<br />
حسن <strong>اور</strong> عشق زمان و مکان کے اسیر نہیں ہیں۔ ص<br />
11<br />
اپنے کہے کی سند میں اشعار درج کیے ہیں۔ پہال شعر<br />
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رح کا درج<br />
کیا ہے ۔<br />
اندر آئینہ جاں عکس جمالے دی دم<br />
ہمچوں خورشید کہ در آپ زاللے دی دم<br />
یہ بات غلط بھی نہیں کہ کالم میں نازکی' شیفتگی'<br />
کشش <strong>اور</strong> آشفتگی کیسے پیدا ہو گی۔ حسن و عشق ہی<br />
تو یہ جوہر اس میں پیدا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ان<br />
عناصر کو پیدا کرنے کے لیے اس نوع کے لفظوں کی<br />
ضرورت پیش آئے گی۔ لکھتے ہ یں۔
جذبات کے اظہار وبیان کو نظم کی شکل دینا <strong>اور</strong> اس<br />
لفظی شکل کو مضمون کے مزاج سے ہم آہنگ کرنا<br />
ہی کمال شاعری ہے۔ ص<br />
19<br />
نقوی<br />
صاحب کا کہنا ہے<br />
جن شعرا کو قبول عام <strong>اور</strong> شہرت دوام حاصل ہوئی ان<br />
کا وہی کالم بنیاد عظمت بنا جو سادہ <strong>اور</strong> عام فہم تھا۔<br />
زبان کی سادگی روزمرہ <strong>اور</strong> بیساختگی ان مشاہیر کا<br />
طرہءامتیاز <strong>اور</strong> فصاحت بالغت و لطافت کالم ان کی<br />
خصوصیات رہیں۔ ص<br />
91<br />
اس کے بعد انہوں نے فصاحت بالغت <strong>اور</strong>سادگی کی<br />
استاد شعرا کے کالم سےاسناد کے ساتھ پرمزہ <strong>اور</strong><br />
پرمغز گفت گو کی ہے ۔<br />
فصاحت کی ا ہے<br />
فصاحت نظم کا وہ لباس ہے جو اس کے پیکر نازنین<br />
سے نہ صرف کامال مربوط ہو بلکہ اس کی زیب
وزینت <strong>اور</strong> مراد شعر کی لطافت و نفاست کا باعث ہو۔<br />
91 ص<br />
بالغت کیا ہ ے۔<br />
بلیغ کالم وہ ہے جو فصیح ہو عیوب سے پاک ہو <strong>اور</strong><br />
مقتضائے حال کے مناسب ہو۔ ص 94<br />
سادگی<br />
کے بارے می ں ان کا موقف ہے کہ<br />
سادگی سے مراد وہ صورت لفظی ہے جو عام فہم ہو<br />
<strong>اور</strong> عالم و عام دونوں طبقات کے افراد کے لئے قابل<br />
اعتنا قرار پا سکے۔ ص 91<br />
کتاب کے آغاز میں قمر نقوی نے جو مقالہ پیش کیا<br />
ہے' کمال کی معلومات رکھتا ہے۔ اچھے کالم کے<br />
اصول <strong>اور</strong> معیارات بڑے خوب صورت انداز میں درج<br />
کیا ہے۔ یہ شاعر <strong>اور</strong> شعر کے قاری <strong>اور</strong> سامع کے<br />
لیے برابر کی افادیت رکھتا ہے ۔<br />
بالغت کے ضمن میں جدید و قدیم شعرا سے سند پیش
کرتے ہیں۔ اس ذیل میں غالب کے کالم سے بھی سند<br />
پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں غالب کا یہ شعر<br />
فصیح و بلیغ ہے لطیف نہ یں<br />
آگہی دم شنیدن جسقدر چاہے پھی الئے<br />
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقری ر کا<br />
غالب کے اس شعر کو لطیف قرار دیتے ہ یں۔<br />
موت کا ایک دن معی ن ہے<br />
نیند کیوں رات بھر نہیں آت ی<br />
بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مجموعہ شعر کے ساتھ<br />
معلومات افروز نثر بھی پڑھنے کو ملے۔ قمر نقوی<br />
کے ہاں یہ کمال شعر و نثر لطف اندوزی کے لیے<br />
میسر آ جاتا ہے ۔<br />
مصوری سے متعلق کالم ترتیب وار درج ہ یں۔<br />
چال ہوں لے کے می ں سرکار دوعالم کے لئے<br />
جمال شعر و<strong>ادب</strong>' فکر و فن کا نذر انہ<br />
..........
جانے کس نے یہ در کعبہ پہ جا کے لکھ د یا<br />
اس کا گھر کہتے ہیں اس کو جس کا کوئی گھر نہ یں<br />
..........<br />
کی سے دل کو سمجھاؤں ہے نظر کا دھوکا سب<br />
چاند میں جو ہاال ہے کان میں جو بالی ہے<br />
.........<br />
مرے لمحے غزاالن حرم ہ یں<br />
یہ روز وشب ہی میرے ہمقدم ہ یں<br />
قمر لکھتا ہوں خود اپنا مقدر<br />
مری طویل میں لوح و قلم ہ یں<br />
.........<br />
ایسی حالت میں کہ ہے انجام دونوں ہی کا ا یک<br />
شمع اب کس کو کہوں می ں کس کو پروانہ کہوں<br />
...........<br />
راہ منزل میں قدم دی کھ کے رکھنا کہ قمر<br />
گرنے والے کو زمانے نے سنبھاال بھی نہ یں<br />
.........
قصہء منصور و سرمد نہ ہوتا تو قمر<br />
دفتر عشق می ں مضمون ہمارا ہوتا<br />
............<br />
بس ایک رقص تک ہی نہ رہ جاؤ دوستو<br />
قاتل چھپا ہوا ہے پس دیوار دی کھنا<br />
...........<br />
! کن<br />
ہزار آبلہ پائی کا غم رہے لی<br />
نظام شوق میں الزم سفر ہی کرنا ہے<br />
نظم۔۔۔۔<br />
...........<br />
آنسو <strong>اور</strong> نگی نہ<br />
...........<br />
الفان ی نظم۔۔۔۔<br />
...........<br />
مرا شمار بھی کرنا رموز قدرت م یں<br />
کہ میں بھی اپنے زمانے کے واجبات می ں ہوں
..........<br />
آنا ہو اگر تم کو آساں ہے پتہ می را<br />
دیوار گری ہو گی بجھتا سا دی ا ہو گا<br />
فن تدوین'<br />
مباحث <strong>اور</strong> مسائل<br />
جائزہ تعارفی ۔۔۔۔۔۔<br />
متن کی تدوین یا متن سے متعلق ہر کام' ناصرف<br />
باریک بینی کا متقاضی ہے' بلکہ بڑا حساس <strong>اور</strong> بڑی<br />
ذمہ داری کا ہے۔ معمولی سی کوتاہی <strong>اور</strong> غفلت'<br />
درستی کے ضمن میں' سال ہا سال ہٹرپ جاتی ہے۔<br />
غلطی پھر بھی درست نہیں ہو پاتی۔ گویا معاملہ تادیر<br />
متنازعہ ہی رہتا ہے۔ متنی غلطی درحقیقت تفہیمی<br />
معامالت میں گڑبڑ کا سبب بنتی ہے۔ ہر کہا ناصرف<br />
کہنے والے کے جذبات' نظریات ترجیحات' حاجت<br />
وغیرہ کی عکاسی کرتا ہے' بلکہ وہ اپنے عہد کی'<br />
منہ بولتی شہادت بھی ہوتا ہے ۔<br />
'<br />
'<br />
1799<br />
میں ٹیپو کو شہید کرنے والے کے لیے' میر صاحب<br />
نے کتے کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ استعمال کی دو
صورتیں ملتی ہیں۔<br />
کس کتے نے مارا ہے<br />
کس کتے نے پھاڑا ہے<br />
پہلی صورت میں' یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے' جو<br />
ایک حادثے کی یاد تازہ کرتا ہے ۔<br />
دوسری صورت میں' بربریت سامنے آتی ہے' جو<br />
نفرت <strong>اور</strong> حقارت کا سبب بنتی ہے ۔<br />
میر صاحب اہل زبان کے درجے پر فائز ہیں۔ ان کا<br />
مح<strong>اور</strong>ہ <strong>اور</strong> زبان آج بھی سند کے درجے پر فائز ہے۔<br />
کتا مارتا نہیں' پھاڑتا ہے۔ دوسرا شاعری میں' لفظ یا<br />
مح<strong>اور</strong>ے کا عام سا استعمال' شاعری کو بےلطف <strong>اور</strong><br />
بےذائقہ بنا دیتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں موت ہی<br />
واضع ہوتی ہے' لیکن شعری فصاحت ہی متاثر نہیں<br />
ہوتی' بالغت پر بھی حرف آتا ہے ۔<br />
کاٹنا بھی عمومی استعمال میں ہے۔ مثال<br />
کس کتے نے کاٹا ہے<br />
کاٹتے سانپ' بچھو کیڑے وغیرہ ہیں۔ کتا اس نوع کی<br />
جنس نہیں ہے۔ دوسرا اس سے موت واضح نہیں<br />
ہوتی. ہولناکی بھی سامنے نہیں آتی۔ اس متنی غلطی<br />
نے آج بھی لسانی <strong>اور</strong> تفہیمی ابہام کے دروازے کھول
رکھے ہ یں۔<br />
کاتب بھی اپنے کماالت دکھاتا آیا ہے۔ مثال میری<br />
کتاب۔۔۔۔اردو میں نئی نظم ۔۔۔۔۔ میں شعری مجموعے۔۔۔۔<br />
کلیوں کے خواب۔۔۔۔۔۔ کا کوئی حوالہ آیا تھا۔ کاتب نے<br />
اسے۔۔۔۔ مکھیوں کے خواب ۔۔۔۔۔ بنا دیا۔ وہ اپنی فراست<br />
سے ماضی شکیہ بنانے کا طریقہ کو ماسی شکیلہ<br />
کے نہانے کا طریقہ بنا سکتا ہے ۔<br />
یہ سب عرض کرنے کا مطلب یہ ہے' کہ متنی کام<br />
حساس <strong>اور</strong> ذمہ داری کا کام ہے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول'<br />
سنجیدہ <strong>اور</strong> کمٹ منٹ کی تحقیق کار ہیں۔ انہوں نے<br />
متنی کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے' اس کام سے<br />
متعلق تحقیق کار کو ۔۔۔۔فن تدوین' مباحث <strong>اور</strong> مسائل۔۔۔۔<br />
ایسا الجواب <strong>اور</strong> قابل قدر تحفہ عطا کیا ہے۔ اس کے<br />
مواد کو دیکھتے ہوئے' اندازہ ہوتا ہے' کہ انہوں نے<br />
بڑی محنت <strong>اور</strong> مشقت اٹھائی ہوگی۔ اس کتاب کا<br />
ابتدائیہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے تحریر کیا ہے' جس<br />
سے کتاب کی قدر و قیمت <strong>اور</strong> اہمیت کا باخوبی اندازہ<br />
لگایا جا سکتا ہے۔ اس کاوش کے بارے ڈاکٹر تبسم<br />
کاشمیری کا کہنا ہے ۔
یہ کام کافی دشوار تھا۔ بکھرے ہوئے مواد کا حصول<br />
آسان نہ تھا۔ خاص طور پر ہندوستانی مقالوں کا<br />
حصول بہت مشکل تھا۔ عابدہ بتول نے تپتی دوپہروں<br />
یخ بستہ دنوں میں الہور کے کتب خانوں نجی ذخیروں<br />
<strong>اور</strong> علم دوست اصحاب کے گھروں کے چکر کاٹے<br />
<strong>اور</strong> تب کہیں یہ مجموعہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔ علم<br />
دوست حلقوں میں اسے ضرور سراہا جائے گا ۔<br />
فن تدوین' مباحث <strong>اور</strong> مسائل ص<br />
5<br />
اس انمول <strong>ادب</strong>ی تحفے کا دیباچہ پروفیسر شرافت علی<br />
نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے بارے ان کا کہنا ہے ۔<br />
زیر نظر تصنیف کے باال استیعاب مطالعے کے بعد یہ<br />
کہنا بےجا نہ ہو گا کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں<br />
پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گ ی۔<br />
فن تدوین' مباحث <strong>اور</strong> مسائل ص<br />
11<br />
انہوں نے بیسیوں مضامین میں سے' پاک و ہند کے<br />
جید <strong>اور</strong> نامور محقیقین کے' سنتیس انتہائی متتعلق<br />
مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ انتخاب بڑا ہی مشکل کام<br />
ہے۔ ہر مضمون متنی تحقیق کے حوالہ سے' بڑے کام<br />
کا ہے۔ متنی تحقیق کار کی آسانی کے لیے' اسے
یاب<br />
چھے حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔<br />
تحقیق متن چھے مضام ین<br />
تصحیح متن سات مضام ین<br />
ترتیب متن تین مضام ین<br />
مخطووطہ شناسی دو مضام ین<br />
عملی تحقیق و تنقید سات مضام ین<br />
تدوین کے دیگر مباحث بارہ مضام ین<br />
ان میں سے چھے مضمون رشید حسن خاں کے ہیں۔<br />
ہر حصہ میں مضامین کی ترتیب کا خاص خیال رکھا<br />
گیا ہے۔ ہاں البتہ عملی تحقیق و تنقید م<br />
: یں<br />
2' 6'7' 1' 4'5<br />
1'2'3'4'5'6'7<br />
ہو جاتی' تو شاید بہتر رہتا۔متعلقہ مضامین کی دستی<br />
کی سہولت کے لیے' آخر میں حوالہ جات بھی درج کر<br />
دیے گئے ہ یں۔<br />
عملی تحقیق و تنقید میں' غالب جو اپنی جدت فکری<br />
کے حوالہ سے' وقثوں وقتوں کا شاعر ہے' کے دیوان<br />
کے متن کے حوالہ سے تین مضمون شامل کیے گیے
یگئ<br />
ہیں۔<br />
غالب <strong>اور</strong> نسخہء شیرانی وحید قر یشی<br />
دیوان غالب صدی ایڈیشن نسخہ مالک رام رشید<br />
حسں خاں<br />
دیوان غالب نسخہءعرشی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ<br />
دمحم سع ید<br />
ایک مضمون غالب کے خطوط کے متن سے متعلق<br />
.ہے<br />
عرشی <strong>اور</strong> تدوین خطوط غالب ڈاکٹر ظفر<br />
احمد صد یقی<br />
اس کتاب میں متنی تحقیق کے حوالہ سے' اچھا خاصا<br />
مواد پیش کر دیا گیا ہے۔ متنی محقق کو بڑی حد تک'<br />
مزید کی ضروت نہیں پڑتی۔ اس کے باوجود' مزید کی<br />
ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ کتاب کے آخر میں<br />
حوالہ جات کے عنوان سے موجود <strong>اور</strong> مزید کی بھی<br />
نشان دہی کر دی ہے ۔<br />
بڑے وثوق <strong>اور</strong> اعتماد سے کہا جا سکتا ہے' کہ ان<br />
کی محنت آج <strong>اور</strong> آتے وقتوں میں بھی' قدر <strong>اور</strong>
پرتحسین نظروں سے دیکھی<br />
جائے گئ ی۔<br />
انسان <strong>اور</strong> انسانی<br />
رو یے<br />
'<br />
'<br />
انسان جب<br />
زمین کا حسن' رنگینیاں آسائشی لوازمات' سامان<br />
عیش وعشرت' سہولتیں' اشیائے خوردنی' وغیرہ<br />
دیکھتا ہے' تو دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں<br />
میں' مقناطیسی قوت ہوتی ہے' جو اس کی رغبت کا<br />
سبب بنتی ہے۔ اشتیاق اسے خود فراموشی کی دلدل<br />
میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ ان کے حصول کی فکر میں<br />
مبتال ہو جاتا ہے۔ پہلے بقدر ضرورت' پھر زیادہ سے<br />
زیادہ <strong>اور</strong> اس کے بعد سب پر' بالشرک غیرے قبضے<br />
کا جنون طاری ہوتا ہے. سکندر پر بھی یہ ہی خبط<br />
طاری ہوا تھا۔ اس کے اس خبط نے' پوری دنیا کو<br />
بےسکون کر دیا۔ اس سے لوگوں کی سوچیں' اسی<br />
دلدل میں پھنسی رہتی ہیں۔ مزید کے بعد مزید کی<br />
سوچ' منفیت کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ ترکیبیں <strong>اور</strong><br />
منصوبے بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ حصول کی سوچ<br />
کے تناسب سے' رویے تشکیل پاتے ہ یں۔<br />
پہلے سے موجود ماحول' حاالت' اطوار وغیرہ بھی
اسی<br />
قماش کے ہوتے ہیں۔ ان سے اثر لینا'<br />
بات ہے ۔<br />
فطری سی<br />
اس کی<br />
مختلف صورتیں وقوع پذیر ہوتی<br />
مثال ہیں۔<br />
ایک برتن سے' دوسرے برتن میں دودھ ڈاال جاتا<br />
ہے۔ پہلے برتن کے ساتھ لگے دودھ کے حصول کے<br />
لیے' پانی ڈال کر برتن کو اچھی طرح ہال کر' یہ ہنگال<br />
دودھ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس پر خالص ہونے<br />
کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس دودھ کو<br />
خالص نہیں کہا جا سکتا ۔<br />
دودھ میں نل یا کنویں کا پانی مال کر' دودھ کو زیادہ<br />
کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ۔<br />
دودھ کو زیادہ کرنے کے لیے جوہڑ جس میں جانور<br />
غسل صحت فرماتے ہیں بالتکلف مال دیا جاتا ہے ۔<br />
دودھ بنانے کے لیے' کییکل استعمال کیا جاتا ہے۔ آج<br />
تو دودھی دودھ بنانے لگے ہیں۔ اس میں سرف <strong>اور</strong><br />
بال صفا جیسی چیزیں ڈالتے ہیں۔ افسوس ناک بات تو<br />
یہ ہے' کہ اسے بھی دودھ کہا <strong>اور</strong> سمجھا جاتا ہے۔ وہ
ہے' جو جانتا<br />
اسے دودھ کہہ کرپیسے وصولتا ہے ۔<br />
اصل دودھ اپنی حیثیت میں بڑے کمال کی چیز ہے۔<br />
توانائی فراہم کرتا ہے ۔<br />
ہنگال یا نلکے کا پانی داخل کر دیا جائے' تو وہ خالص<br />
نہیں رہتا' لیکن یہ خطرناک نہیں ہوتا۔ ہاں خالص کی<br />
سی توانائی سے محروم رکھتا ہے ۔<br />
اب جب اس میں' گندے پانی کی مالوٹ کی جائے گی'<br />
تو یہ ناصرف توانائی سے مرحوم ہو جائے گا' بلکہ<br />
خوف ناک ہو جائے گا۔ ہاں اس سے انکار نہیں کہ اس<br />
میں دودھ بھی ہے ۔<br />
ان میں سے کوئی دودھ' اپنی اصل فطرت پر نہیں۔<br />
موجودہ دودھ فطرت ثانیہ پر ہے۔ فطرت ثانیہ کسی<br />
سطع پر درست نہیں ہو سکت ی۔<br />
خودساختہ سراب نما دودھ کی اپنی الگ سے فطرت<br />
ہے۔ اس کی فطرت سے' آلودہ کی موجودہ فطرت کا<br />
بھی تقاضا نہیں کیا سکتا۔ وہ دودھ ہی نہیں تو تقاضا<br />
کیسا۔ اصل تو بڑی دور کی بات ہے ۔
انسانی رویے اس مثال کے مماثل رہے ہیں۔ ادیب<br />
شاعر بھی' ان رویوں کو قلم بند کرتے ہیں۔ وہ خود<br />
بھی کسی ناکسی سطع پر' ان میں سے کسی ایک پر<br />
ہوتے ہیں' اس حوالہ سے غیرجانبدار ہو کر بھی'<br />
غیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ جو بھی سہی' ان کے ہاں<br />
آج کی شہادتیں موجود ہوتی ہیں۔ جنھیں آتا کل' تالش<br />
ہی لیتا ہے۔ آج بھی قاری' بوقت مطالعہ' اپنی فطرت پر<br />
ہوتا ہے. دوران مطالعہ محبت نفرت' خوشی دکھ' ہم<br />
دردی سفاکی وغیرہ کیفیات سے دوچار ہوتا ہے ۔<br />
ایک قدیم اردو شاعر کے کالم کا تعارفی<br />
جائزہ<br />
و لسانی<br />
مخدومی و مرشدی جنت مکانی قبلہ سید غالم حضور<br />
کے علمی و<strong>ادب</strong>ی ذخیرے سے ملنے والی کتاب' اظہار<br />
دمحمی منظور احمدی' کب <strong>اور</strong> کس سن میں شائع ہوئی'<br />
ٹھیک سے کہا نہیں جا سکتا۔ اس پر تاریخ <strong>اور</strong> سن<br />
درج نہیں ہے۔ ہاں پبلیشر کا نام فقیر فضل حسین<br />
تاجر کتب ابن حاجی عالؤالدین مرحوم ساکن پتوکی<br />
نوآباد ضلع الہور..... درج ہے۔ پتوکی نوآباد ضلع<br />
الہور سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ اس چوبیس<br />
.....
صفحے کی<br />
اشاعت'<br />
اس وقت ہوئی'<br />
آباد ہوا تھا ۔<br />
جب پتوکی<br />
نیا نیا<br />
اس میں مولوی احمد یار کی پنجابی مثنوی' مرزا<br />
صاحبان کا <strong>کچھ</strong> حصہ درج ہے۔ گویا یہ ان دنوں کی<br />
بات ہے' جب وہ زندہ تھے <strong>اور</strong> مثنوی مرزا صاحبان<br />
تحریر کر رہے تھے۔ یہ کالم ص11 تک ہے۔<br />
ص15-14 پر سترہ پنجابی اشعار پر مشتمل کافی بھی<br />
ہے۔ گویا مولوی احمد یار پنجابی کافی بھی کہتے<br />
تھے۔ پنجابی میں ان کی صرف مثنوی مرزا صاحبان<br />
پڑھنے کو ملتی ہے ۔<br />
کتاب کے بقیہ صفحات پر' مولوی غالم دمحم کا اردو<br />
پنجابی <strong>اور</strong> فارسی کالم شامل ہے۔ سرورق پر موجود<br />
معلومات کے مطابق' مولوی غالم دمحم قسمانہ ساکن<br />
صابا تحصیل دیپالپور تھانہ حجرہ ضلع منٹگمری حال<br />
ساہی وال کے تھے۔ ص11-11 پر ریختہ کے نام<br />
سے کالم درج ہے۔ یہ کل نو شعر ہیں۔ انہوں نے لفظ<br />
ریختہ زبان کے لیے لکھا ہے یا اردو غزل کے لیے'<br />
واضح نہیں۔ پہال پانچواں <strong>اور</strong> آخری شعر غزل کے<br />
مزاج کے قریب ہے۔ غزل کے باقی اشعار' مروجہ
عمومی مزاج سے لگا نہیں رکھتے۔ ہاں غزل میں<br />
صوفیانہ طور' صوفی شعرا کے ہاں ضرور ملتا ہے ۔<br />
نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کی وں ہوتا<br />
نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کی وں ہوتا<br />
نہ پڑتا پرہ تو حق کا اگر رخسار خوباں پر<br />
تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کی وں ہوتا<br />
مقیم اس دام زلفمیں نہ بھنستا اگر دل تی را<br />
تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کی وں ہوتا<br />
ص19 پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف کا نام<br />
دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مولود شریف شیخ سعدی<br />
صاحب کے چار شعر دیئے گیے ہیں۔ اردو مولود<br />
شریف کے بعد' مولود شریف مولوی جامی صاحب<br />
کے' نو شعر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود<br />
شریف کے عنوان سے' نو شعر درج کیے گیے۔ ص<br />
پر موجود کالم کو کافی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کالم<br />
کو نہ پنجابی کہا جا سکتا <strong>اور</strong> ناہی اردو' تاہم بعض<br />
شعر اردو کے قریب تر ہیں۔ دو ایک شعر باطور نمونہ<br />
مالحظہ ہوں ۔<br />
کائی کہو سجن کی بات جن کے پریم لگائی چاٹ<br />
19
پہال شعر<br />
سلیمان نبی بلقیس نہ ہو ہک آہی مطلق ذات<br />
پانچواں شعر<br />
بحر محیط نے جوش کیا تب نوروں ہویا خوش کیا<br />
چھٹا شعر<br />
کامل پیر پناہ ہمارا موم کرے دل لوہا سارا<br />
چھبسواں شعر<br />
دو غزلیں فارسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دیا گی ا ہے<br />
غزل مولوی غالم دمحم از صابا<br />
اے بنات تو مزین مسند پیغمبری وے خجل<br />
گشتہءرویت آفتاب خ<strong>اور</strong> ی<br />
مطلع فارسی غزل ص<br />
11<br />
غزل از غالم دمحم صاحب<br />
جاں فدائے تو یا رسول هللا دل گدائے تو<br />
هللا<br />
مطلع فارسی غزل ص<br />
یا رسول<br />
19<br />
پنجابی کالم کے لیے' لفظ کافی استعمال ہوا ہے۔ داخلی<br />
شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے' کہ لفظ ریختہ
اردو غزل کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ وغیرہ یدل<br />
میں جو مشاعرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو<br />
اصطالحات رواج رکھتی تھیں۔ فارسی کالم کے لیے<br />
مشاعرے' جب کہ اردو کالم کے لیے' لفظ مراختے<br />
رواج رکھتا تھا. لفظ اردو محض شناخت کے لیے لکھ<br />
رہا ہوں' یہ لفظ عمومی رواج نہ رکھتا تھا ۔<br />
اس صورت حال کے پیش نظر' غالب کے ہاں استعمال<br />
ہونے واال لفظ ریختہ' گڑبڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔<br />
مولوی غالم دمحم پہلے کے ہیں' عہد غالب کے ہیں یا<br />
بعد کے' بات قطعی الگ تر ہے۔ مشاعروں میں زیادہ<br />
تر غزلیہ کالم سنایا جاتا تھا <strong>اور</strong> آج صورت حال<br />
مختلف نہیں۔ گویا غزل کے لیے لفظ ریختہ' جب کہ<br />
مشاعرے کے لیے لفظ مراختہ استعمال ہوتا تھا۔<br />
المحالہ زبان کے لیے کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا<br />
ہوگا۔ اس حساب سے غالب کے ہاں بھی غزل کے<br />
معنوں میں اسستعمال ہوا ہے۔ اگر یہ صاحب' غالب<br />
کے بعد کے ہیں' تو اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا کہ لفظ<br />
اردو باطور زبان استعمال ہوتا ہو گا لیکن عمومی<br />
مہ<strong>اور</strong>ہ نہ بن سکا تھا۔ اس کا عمومی مہ<strong>اور</strong>ہ بننا بہت<br />
بعد کی بات ہے ۔
لفظوں کو مال کر لکھنے کا عام چلن تھا۔ اس کتاب<br />
میں بھی یہ چلن موجود ہے۔ مثال<br />
جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجہ نہیں غم<br />
ہم سے ص<br />
تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />
آنکہون میں ص<br />
دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ کا رواج تھا۔<br />
مثال<br />
نہوتا سر مولے کا اگر کجہ ذات انسانم یں<br />
19<br />
11<br />
بہت سے لفظوں کا تلفظ <strong>اور</strong> مکتوبی صورت آج سے<br />
الگ تھی۔ مثال<br />
نہوتا بھیت اسمیں خورشی د فدا کا<br />
بھیت بھید ص<br />
ولی وں کے کاندہے قدم غوث اعظم<br />
کاندہے کندھے ص<br />
11<br />
14<br />
تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کی وں ہوتا<br />
میں اضافت کی بجائے ے کا استعمال کیا گیا ہے ۔
شاعر نے خوب صورت مرکبات سے بھی کالم کو<br />
جازب فکر بنانے کی سعی کی ہے۔ مثال<br />
حسن منظور<br />
تو ہر عاشق کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />
ص<br />
ستارہ دمحم ی<br />
غالب سب سے آیا ستارہ دمحمی ص<br />
مستعمل سب پہ ہے لیکن سب سے استعمال کیا گیا<br />
ہے ۔<br />
مرکب لفظ دیکھ یے<br />
خداگر<br />
عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص<br />
19<br />
14<br />
11<br />
کالم میں ریشمیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مثال<br />
نہ پڑتا پرتوہ حق اگر رخسار خوباں پر<br />
تو ہرعاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا<br />
ص 11<br />
کیا زبردست طور سے صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے ۔<br />
تو دین <strong>اور</strong>کفر میں جدائی نہ ہوتی ص<br />
صنعت تضاد کی مختلف نوعیت کی دو ایک مثالیں <strong>اور</strong><br />
14
مالحظہ ہوں ۔<br />
نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کی وں ہوتا<br />
نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کیوں ہوتا ص<br />
جہاں صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے' وہاں اردو زبان<br />
کو دو خوب صورت استعارے بھی میسر آئے ہیں.اگر<br />
مختار ہو آدم آپن کے خی ر وشر اوپر<br />
تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص<br />
11<br />
11<br />
اشعار تلمیحات سے متعلق ہوتے ہی۔ تلمیحات کا<br />
استعمال اسی حوالہ سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو<br />
ایک مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />
اگر مختار ہو آدم آپن کے خی ر وشر اوپر<br />
تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص<br />
11<br />
لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے<br />
اگر یوں جانتا شیطاں تو وہ مغرور کیوں ہوتا ص<br />
11<br />
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے کا<br />
استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ دو ایک مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />
لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے
یعل<br />
ص 11<br />
بھیت سجن کی خبر لیاوے ص<br />
تو ہم عاجزوں کی رھائی نہوتی ص<br />
19<br />
14<br />
زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی برا <strong>اور</strong> ناموس نہیں۔ مثال<br />
کیا دعوئے اناالحق کا ہویا سردار کیوں ہوتا ص<br />
کائی کہو سجن کی بات<br />
جن کے پریم لگائی چاٹ ص<br />
گذر گیا سر توں پانی ص<br />
11<br />
19<br />
11<br />
اس شعری مجموعے کے اردو کالم پر' پنجابی کے<br />
اثراات واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ بعض جگہ<br />
لسانی <strong>اور</strong> کہیں لہجہ پنجابی ہو جاتا ہے۔ مثال<br />
نہ ہوتا بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ کا ص<br />
تو ہر ذرہ انہاں خورشید سے پرنور کیوں ہوتا<br />
ص<br />
ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص<br />
اب لہجے سے متعلق ایک دو مثثالیں مالحظ ہوں ۔<br />
جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجھ نہیں غم ص<br />
11<br />
19<br />
11<br />
19<br />
کو جے مشکل کشا حق نہ کرتے ص<br />
14
یرہ<br />
یالن<br />
اردو پر ہی موقوف نہیں' پنجابی بھی اردو سے متاثر<br />
نظر آتی ہے۔ مصرعے کے مصرعے اردو کے ہ یں۔<br />
کہیں قطب فرید حقانی<br />
ہے کہیں میراں شاہ جی ہے<br />
کہیں پیر پناہ لوہار ص<br />
کہیں بہاؤالدین ملتانی ہے 19<br />
اس چوبیس صفحے کی مختصر سی کتاب سے' یہ بات<br />
واضح ہوتی ہے' کہ مولوی غالم دمحم آف صابا تین<br />
زبانوں کے شاعر تھے. مختلف اردو اصناف میں شعر<br />
کہتے تھے <strong>اور</strong> اچھا کہتے تھے۔ ان کا کالم کیا ہوا <strong>اور</strong><br />
کدھر گیا' کھوج کرنے کی ضرورت ہے ۔<br />
مثنوی<br />
ماسٹر نرائن داس'<br />
ایک <strong>ادب</strong>ی<br />
جائزہ<br />
'<br />
دوسری زبانوں کی طرح اردو' وہ جس رسم الغط میں<br />
بھی مختلف حوالوں سے' اس کے ساتھ دھرو<br />
ہوتا آیا ہے۔ مثال<br />
جنگجوں نے' اسے دشمن کا ذخیرہءعلم سمجھتے<br />
ہوئے' برباد کر دیا' حاالں کہ لفظ کسی قوم یا عالقہ کی
یآئ<br />
ملکیت نہیں ہوتے ۔<br />
اردو کو مسمانوں کی زبان سمجھتے ہوئے' غیر<br />
مسلموں کی تحریوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جب کہ<br />
اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زبان تو اسی کی ہے' جو<br />
اسے استعمال میں التا ہے ۔<br />
گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں <strong>اور</strong> لکڑیوں کو<br />
ترجیح میں رکھتے ہوئے' علمی و<strong>ادب</strong>ی سرمایہ ردی<br />
میں بیچ کر' دام کھرے کر ل یے۔<br />
بہت <strong>کچھ</strong>' حاالت' حادثات <strong>اور</strong> عدم توجہگی کی نذر ہو<br />
گیا۔<br />
قددرتی آفات بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی<br />
ہیں۔<br />
تہذیبں مٹ گئیں' وہاں محض کھنڈر <strong>اور</strong> ٹیلے رہ گیے۔<br />
بہت <strong>کچھ</strong> ان میں بھی دب گیا۔ بعد کے آنے والوں نے'<br />
انہیں بلڈوز کرکے صاف زمین کے ٹکڑے کو' سب<br />
<strong>کچھ</strong> سمجہ لیا۔ اگر محتاط روی اختیار کی جاتی تو<br />
وہاں سے' بہت <strong>کچھ</strong> دستیاب ہو سکتا تھا ۔<br />
ماسٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر <strong>اور</strong> خوش<br />
زبان' شاعر <strong>اور</strong> نثار تھے۔ سردست ان کی ایک کاوش<br />
فکر فوٹو کاپی کی صورت میں' دستیاب ہوئی ہے' جو
یات<br />
پیش خمت ہے۔ اس سے پہلے سوامی<br />
کالم پیش کر چکا ہوں ۔<br />
رام تیرتھ کا<br />
ماسٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے<br />
<strong>اور</strong> فرید کوٹ کے مڈل سکول میں' باطور ہیڈ ماسٹر<br />
فرائض انجام دے رہے تھے' اٹھائیس بندوں پر مشتمل<br />
مسدس باعنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر کیا۔ یہ<br />
میں باللی پریس ساڈھورہ ضلع انبالہ میں کریم<br />
بخش و دمحم بالل کے اہتمام طبع ہوا۔ گویا یہ آج سے'<br />
112 سال پہلے شائع ہوا۔ اس مسدس کی زبان آج<br />
سے' رائی بھر مختلف نہیں۔ خدا لگتی یہ ہے' اسے<br />
پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا' کہ ماسٹر نرائن داس کو<br />
زبان پر کامل دسترس تھی۔ زبان وبیان میں فطری<br />
روانی موجود ہے۔ اپنا نقطہء نظر' انہوں نے پوری<br />
دیانت' خلوص <strong>اور</strong> ذمہ داری سے پیش کیا ہے ۔<br />
1599<br />
انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختیار<br />
کیے ہ یں۔<br />
مزے کی بات یہ کہیں مذہبی یا نظری پرچھائیں تک<br />
نہیں ملتی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے' فقط آٹھائیس<br />
بندوں میں زبان بیان کے دس اطوار اختیار کیے۔
بالشبہ ماسٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے <strong>اور</strong><br />
بااصول انسان رہے ہوں گے ۔<br />
انہوں نے سچائی کو مذہب پر فضیلت دی ہے۔ ان کے<br />
مطابق خدا سچائی سے الفت رکھتا ہے۔ کہتے ہ یں۔<br />
سچائی کے عقیدے کو مذہب پر فضی لت ہے<br />
خدا کو بندگان راستی سے خاص الفت ہے<br />
صداقت اپنی حیثیت میں ہے ک یا۔<br />
سچائی رحمت ازلی و ابدی کا خزی نہ ہے<br />
صدق اوج سعادت کا عظیم الشان زی نہ ہے<br />
اس کا فنکشن کیا ہے ۔<br />
ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اعلے بناتی<br />
وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظم سے بھی پاتی<br />
صداقت <strong>اور</strong> کذب کا موازنہ<br />
ملمع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی<br />
نکما محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی<br />
ہے<br />
ہے<br />
کے<br />
کے<br />
صداقت کے فوائد
یکئ<br />
یمن<br />
سچائی ہر دوعالم میں ہے دیتی رتبہ اعلے<br />
سچائی کرتی ہے ہر دو جہاں می ں مرتبہ اعلے<br />
سچائی<br />
کے ضمن می ں دالئل<br />
حکومت بھرتری<br />
تیاگی<br />
سچائی<br />
ہو گیا ساکی<br />
نے چھوڑ دی<br />
..........<br />
.............<br />
خاطر سچائی<br />
خاطر سچائی<br />
کو بنای ا راہنما پہالد نے اپنا<br />
...........<br />
کی<br />
پکڑ کر ہاتھ سے اپنے پئے خاطر سچائی کی<br />
پیالے زہر کے سقراط نے خاطر سچائی کی<br />
مسیحا بھی<br />
...........<br />
ہوئے صلوب تھے خاطر سچائی<br />
.............<br />
ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خاطر سچائی<br />
.............<br />
کی<br />
کی<br />
کی<br />
بچھڑے پیارے وطن سے خاطر سچائی کی<br />
.............<br />
پڑے شعلوں میں جلتی آگ کے خاطر سچائی کی
سچائی<br />
فقرا کا مسلک ہوتی<br />
ہے ۔<br />
سچائی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھاتی ہے<br />
سچائی معرفت کے راستے انکو بتاتی ہے<br />
سچائی کردگار پاک کی قربت دالتی ہے<br />
یہی آخر انہیں درگاہ ایزد میں پہنچاتی ہے<br />
کذب کا انجام کیا ہوتا ہے ۔<br />
کذب دم میں گنواتا ہے شہنشاہونکی عزت کو<br />
تباہ کرتا ہے انکی شان کو شوکت کو ہی بت کو<br />
اسی سے ڈر ہے وقعت کو خطر اس سے دولت کو<br />
گراتا سرنگوں ہے غرض ان کے عالم رفعت کو<br />
ہزل پیشوں کو هللا خاک می ں آخر مالتا ہے<br />
مگر سچوں کا حافظ <strong>اور</strong> مودی <strong>اور</strong> داتا ہے<br />
حکائتی<br />
انداز بھی<br />
اختیار کیا گیا ہے ۔<br />
گڈریے کی حکایت بھی نصیحت خوب دیتی ہے<br />
کہ جسکی شیر کے پنجے سے پیاری جان نکلتی ہے
یست<br />
کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے<br />
سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی ملتی ہے<br />
اہل ہند کے بارے چینیوں <strong>اور</strong> رومیوں کی<br />
آراء<br />
صداقت اہل ہندوستاں کے یونانی<br />
چلن کے اہل ہندوستاں کے چینی<br />
ثنا خواں تھے<br />
ثنا خواں تھے<br />
موجودہ صورت حال<br />
صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />
ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />
سچائی<br />
کے رستے پر چلنے والوں کی<br />
مبارکباد<br />
تحسین <strong>اور</strong><br />
مبارک ہو خوشی اے راستی کے چاہنے والو<br />
مبارک مخروقی اے راستی کے چاہنے والو<br />
مبارک برتری اے را کے چاہنے والو<br />
مبارک خوش روی اے راستی کے چاہنے والو<br />
مبارک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مبارک ہو
مبارک آپ کو یہ مہر<br />
ربانی<br />
مبارک ہو<br />
ان کی مذہبی عصبت سے دوری کا سب سے بڑا ثبوت<br />
یہ ہے کہ انہوں نے ذات باری کے لیے کردگار' ایزد'<br />
هللا'رب' خدا نام استعمال کیے ہ یں۔<br />
ماسٹر صاحب کے پاس متبادالت کا خزانہ موجود<br />
ہونے کا گمان گزرتا ہے ۔<br />
سچائی سے خدا تعالے کی<br />
صدق<br />
خدا کو بندگان<br />
کو<br />
نہ ہرگز سانچ<br />
صداقت<br />
........<br />
راستی<br />
........<br />
یا زرہ سمجھو کہ<br />
کی<br />
........<br />
رحمت کی<br />
ترقی<br />
سے خاص الفت ہے<br />
یہ اک زیب تن کی<br />
ہے<br />
کو ہے آنچ اس نے آزما دی کھا<br />
........<br />
مدد ان کو سچائی<br />
اب <strong>کچھ</strong> مرکبات مالحظہ ہوں ۔<br />
کے سہارے ہ یں<br />
ہے
وہ فلک راستی<br />
کے چمکتے گویا ستارے ہ یں<br />
........<br />
مبارک گلستان راستی کے ٹہلنے والو<br />
مبارک زیور صدق و صداقت پہننے والو<br />
.........<br />
ستون سرخ آہن سے خوشی<br />
شہیدان صداقت<br />
.........<br />
سے دوڑ کر لپٹا<br />
نے دیا خاطر سچائی<br />
.........<br />
فتح کےلوک میں پرلوک میں<br />
........<br />
کی<br />
ڈنکے بجاتے ہ یں<br />
کیا خوب مصرع ہیں۔ فصاحت و بالغت کا منہ بولتا<br />
ثبوت ہیں۔ اس ناصحانہ انداز میں تلخی ضرور ہے'<br />
لیکن فکری و لسانی حوالہ سے' ان مصرعوں کو<br />
نظرانداز کرنا' زیادتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں<br />
میں' انہوں نے آفاقی سچائی بیان کی ہے ۔<br />
ہوا کرتا ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا نازل<br />
کبھی درگاہ سچی میں نہی ں کازب ہوئے داخل<br />
ہزل پیشوں<br />
..........<br />
کو هللا خاک می ں آخر مالتا ہے
.........<br />
مبارک آپ کو<br />
مہر ربانی یہ<br />
مبارک ہو<br />
ماسٹر صاحب کی<br />
ہوانہیں۔<br />
زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی نفاست سے<br />
دو ایک مثالی ں مالحظہ ہوں<br />
گرا<br />
کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی<br />
کلہاڑی<br />
سچائی<br />
...........<br />
ہے<br />
ہاتھ سے اپنے وہ خود پاؤں پہ دھرتے ہ یں<br />
...........<br />
کا نصیبے والے ہی<br />
............<br />
اسی سے نام رہتا ہے جہاں میں<br />
ہوئی<br />
ہے راستی<br />
..........<br />
دامن پکڑتے ہ یں<br />
ی اد سچوں کا<br />
کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />
مثنوی<br />
کا پہال شعر ہی<br />
تشبیہ پر استوار ہے۔<br />
مالحظہ ہو<br />
سچائی<br />
مثل کندن چمکتی<br />
ہے دندناتی<br />
ہے
وہ جلوہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھاتی<br />
ہے<br />
صنعت تکرار لفظی کا استعمال بھی ہوا ہے۔ ہاں البتہ'<br />
دندناتی کی جگہ' کوئی <strong>اور</strong> لفظ رکھ دیتے تو زیادہ<br />
اچھا ہوتا ۔<br />
ایک <strong>اور</strong> خوب صورت سی تشبیہ مالحظہ ہو ۔<br />
'<br />
مگر ہے جھوٹ مثل کانچ اس نے آزما دی کھا<br />
اب صنعت تضاد کی<br />
<strong>کچھ</strong> مثالیں مالحظہ فرما ل یں۔<br />
شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہا اسکا<br />
انتہا کو مونث باندھا گیا ہے <strong>اور</strong> یہ غلط نہ یں۔<br />
.......<br />
سچائی راحت ازلی و ابدی کا خزی نہ ہے<br />
.......<br />
زبان پاک کو اے دل نہ آلودہ کذب سے کر<br />
ماسٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچائی کے حوالہ<br />
سے' ہندوستان کی حالت کو' ریکارڈ میں دے دیا ہے۔<br />
کہتے ہ یں
بنای ا جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنما اپنا<br />
سچائی الودع! ہے آجکل کذب وری ا اپنا<br />
دھرم باقی رہا اپنا ن ہ دل قائم رہا اپنا<br />
نہ یارو جھوٹ کے ہاتھوں سے ایماں ہی بچا اپنا<br />
صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />
ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے<br />
مثنوی کا آخری شعر جس میں تخلص استعمال ہوا ہے'<br />
پی ش خدمت ہے<br />
یہ عاصی اے سچائی تیرے ہی گھر کا سوالی ہے<br />
ترا ہی داس <strong>اور</strong> تیرے ہی گھر کا سوالی ہے<br />
کہا جاتا ہے' انسان نے ترقی کر لی ہے۔ خاک ترقی کی<br />
ہے' جہاں علم دو نمبر کی چیز ہو <strong>اور</strong> اہل قلم کی موت<br />
کے بعد' ان کے پچھلے' ان کے لہو پاروں کو' ردی<br />
میں بیچ دیں یا طاقت کے نشہ میں چور حکمرانوں<br />
کے پیشہ ور بےرحم جنگجو' اس انسانی ورثے کو'<br />
نیست ونابود کر دیں. وہاں ہوس اللچ <strong>اور</strong> نفسا نفسی<br />
کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہوس' اللچ <strong>اور</strong> نفسا<br />
نفسی ترقی ہے' تو وہ بہت زیادہ ہوئی ہے ۔
ماسٹر صاحب نے <strong>اور</strong> بھی بہت <strong>کچھ</strong>' شعر و نثر میں<br />
لکھا ہو گا' <strong>کچھ</strong> کہہ نہیں سکتے۔ تقسیم ہند کا عمل<br />
تقریبا نصف صدی بعد کا ہے۔۔ اس لیے' وہ تقسیم میں<br />
ضائع نہیں ہوا ہو گا۔ آج جامعات' تحیقی ڈگری چھاپنے<br />
میں مصروف ہیں' اگر وہ خاموش اردو کے خدمت<br />
گاروں کو' تالشنے کو بھی' تحقیق سمجھیں' تو یہ<br />
اردو زبان کی بہت بڑی خدمت ہوگ ی۔<br />
باراں ماہ غالم حضور شاہ<br />
ہر پڑھنے لکھنے واال' اپنے ہی گھر میں' اپنی<br />
عزت مآپ تینویں مبارکہ سے ی ہ جملے<br />
ہی<br />
سنتا آ رہا ہے ۔<br />
تم نے زندگی میں کیا ہی<br />
کیا ہے ۔<br />
گھر کو کوڑ کباڑ بنائے رکھا ہے ۔<br />
لوگ جائیدادیں بناتے ہیں تم نے جائیداد میں بس ردی<br />
ہی بنائی ہے ۔
لٹیرے <strong>اور</strong> تباہ کاریئے عموما چار طرح کے رہے ہ یں۔<br />
ادھر اماں بابا مرے ادھر آل اوالد چھنیوں کولیوں پر<br />
ٹوٹ پڑی۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کے حصول میں<br />
الجھ جاتا ہے۔ بابے کے کاغذات کی ٹھوک بجا کر بڑی<br />
بےدردی سے تالشی لی جاتی ہے کہ بابے نے<br />
کاغذوں کتابوں میں مختصر یا کوئی لمی چوڑی رقم نہ<br />
چھپا دی ہو ۔<br />
تالشی کے بعد بابے کے لفظ' جو اس کی عمر بھر کی<br />
کمائی ہوتے ہیں ردی میں بک جاتے ہیں۔ کہیں<br />
زور<strong>اور</strong> آل اوالد بابے کے مرنے کا بھی انتظار نہیں<br />
کرتی۔ یہ لوٹ مار <strong>اور</strong> توڑ پھوڑ کا سامان اس کی<br />
آنکھوں کے سامنے ہی ہو جاتا ہے۔ ڈھیٹ بن کر جی<br />
رہا ہوتا ہے' لفظوں ناقدری برداشت نہیں کر پاتا <strong>اور</strong><br />
اگلے سفر پر بڑی حسرت <strong>اور</strong> بےبسی سے روانہ ہو<br />
جاتا ہے ۔<br />
چور ڈاکو بھی جہاں گھر کے دوسرے سامان کی<br />
پھروال پھرولی کرتے ہیں وہاں کتب خانے بھی<br />
ویرانے میں بدل جاتے ہیں۔ کہیں <strong>اور</strong> کسی دور میں<br />
کسی بابے نے رقم نام کی چیز رکھ دی ہو گی <strong>اور</strong> یہ
شک چوروں میں نسل در نسل چال آتا ہے۔<br />
<strong>اور</strong> سکے کب ہم سفر رہے ہ یں۔<br />
ورنہ علم<br />
حیران چوری ایسا مشکل <strong>اور</strong> دقت گذار پیشہ صدیوں<br />
سے چال آتا ہے۔ ریسک کے ساتھ جگاترا کاٹنا ایسا<br />
آسان کام نہیں۔ اگلے وقتوں میں پکڑے جانے کی<br />
صورت میں چھتر بھی کھانے پڑتے تھے۔عصر حاضر<br />
میں یہ رواج نہیں رہا۔ پہلے ہی مک مکا ہو چکا ہوتا<br />
ہے۔ ہاں چھتروں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ چور شور<br />
مچاتے ہیں <strong>اور</strong> ان کے شور کو اول تا آخر پذیرائی<br />
حاصل رہتی ہے ۔<br />
تیسرے نمبر پر اپنا ہی ملک فتح کرنے والے آتے ہیں۔<br />
یہ جہاں جان مال <strong>اور</strong> امالک کو غارت کرتے ہیں وہاں<br />
لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی جمع پونجی ردی کو<br />
بھی برباد کرکے رکھ دیتے ہ یں۔<br />
بیرونی حملہ آواروں زبان غیر کی مرقومہ ذہانت و<br />
فطانت سے کیا لینا دینا۔ وہ زمین امالک <strong>اور</strong> سونے<br />
چاندی کے سکوں کی چمک دمک میں اپنے ہاں کی<br />
ردی کو بھی خاطر میں نہیں التے ۔
یگئ یسن<br />
مخدومی ومرشدی سید غالم حضور نے دنیا کو 1955<br />
میں الودع کہا تو محترمہ والدہ صاحب نے چلتی<br />
سانسوں تک مکان آباد رکھا۔ حسب سابق بچے ان<br />
سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ آخر مروت بھی کوئی<br />
چیز ہوتی ہے صرف دو چار بار مکان کے تو تکرار<br />
ہوئی۔ میری خواہش تھی کہ مخدومی ومرشدی سید<br />
غالم حضور کی اقامت گاہ کو بہرطور آباد رہنا چاہیے۔<br />
وہ مجبور تھیں وقت سے پہلے کس طرح مر جاتیں۔<br />
چھنوں کولیوں کے شوکینوں کی <strong>اور</strong> وہ<br />
میں انتقال فرما گئیں۔ کفن دفن کے ساتھ ہی<br />
کیل کانٹوں سے لیس قبضہ گروپ نے قدم جما لیے۔<br />
میں نے غور ہی نہ کیا۔ امی ابا ہی نہ رہے تھے اب<br />
میرے لیے وہاں کیا رہ گیا تھا ۔<br />
1992<br />
مخدومی ومرشدی سید غالم حضور پنجابی شاعر<br />
تھے۔ عالوہ ازیں بھی اچھی خاصی ردی ورثہ میں<br />
چھوڑی تھی۔ اس کا کیا ہوا یہ ایک الگ سے کہانی<br />
ہے۔ اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔<br />
چھوٹی نصرت شگفتہ نے ایک رجسٹر مہیا کیا ہے۔<br />
کا کالم ہے۔ رجسٹر کی حلت<br />
اس میں<br />
12<br />
,15<br />
,1914
یآت<br />
کا <strong>کچھ</strong> نہ پوچھیے۔ اگر اس پر تاریخیں درج نہ ہوتیں<br />
تو میں نے اس کے حضرت آدم ع سے پہلے ہونے کا<br />
دعوی داغ دینا تھا۔ گویا میرے والد صاحب مخدومی<br />
ومرشدی سید غالم حضور' حضرت آدم ع سے پہلے<br />
ہو گزرے ہ یں۔<br />
اس میں مختلف نوعیت <strong>اور</strong> مختلف اصناف پر مبنی<br />
کالم ہے۔ بارہ ماہ مقبول و معروف صنف شعر رہی<br />
ہے۔آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج میں نہیں رہے<br />
لہذا یہ صنف <strong>ادب</strong> ہی ختم ہو گئی ہے۔ یہ بھی اس<br />
رجسٹر میں ملتے ہیں۔ سن اندراج درج نہیں۔ کاتب<br />
کون ہے ٹھیک سے <strong>کچھ</strong> کہہ نہیں سکتا۔ ساون کے<br />
چاروں شعر ہیں۔ آخری مصرع پڑھا نہیں جا رہا۔ پھاگن<br />
کے دو مصرعے اندراج میں آئے ہیں۔ دونوں ہی<br />
پڑھے نہیں جا رہے۔ آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج<br />
میں نہیں رہے لہذا یہ صنف <strong>ادب</strong> ہی ختم ہو گئی ہے ۔<br />
ہر مہینے کے برصغیر میں الگ سے رنگ رہے ہیں۔<br />
قدرتی طور شخص کے جذبات <strong>اور</strong> احساسات ان کے<br />
حوالہ سے تبدیلی ہے۔ شاعر باریک بین ہوتا ہے<br />
<strong>اور</strong> وہ بدلتے موسموں کے ساتھ شخص کے باطنی
رنگوں کا بھی مطالعہ کر لیتا ہے <strong>اور</strong> ان رنگوں کا<br />
اظہار بھی اسی طور سے کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔<br />
باباجی کے ان بارہ مہینوں میں ہجر کی مختلف کیفیات<br />
کو بیان کیا گیا ہے۔ زبان بالکل سادہ <strong>اور</strong> عوامی ہے۔<br />
مفاہیم تک رسائی کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔<br />
البتہ دو اطوار اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں معاملہ ذات<br />
سے <strong>اور</strong> کہیں سیکنڈ پرسن کے حوالہ سے بات کی<br />
ہے۔ دونوں صورتوں کی مثالیں مالحظہ ہوں ۔<br />
غالم حضور شاہ بالوے بیٹھا کوئی سندا نئیں -1<br />
واجاں نوں<br />
غالم حضور شاہ نوں اللچ ال کے گالں دے وچہ ٹالیا<br />
سو<br />
م حضور شاہ دے آکھے لگ کے دکھڑے میں<br />
سناواں گ ی<br />
غالم حضور شاہ دے آکھے لگ کے کھوتا کھوہ چا<br />
پایا ا ی<br />
غال -2
یخت<br />
صنف ری کے عالوہ بھی صیغہ تانیث استعمال<br />
کرنے کا عام رواج تھا۔ بابا جی کے ہاں یہ رویہ ملتا<br />
ہے۔ مثال<br />
چیت مہینہ چڑھیا اڑیو میں ہن لبھن جاواں گ ی<br />
وساکھ وساکھی ٹر گئے لوکیں گھر وچہ بیٹھی رواں<br />
میں<br />
گھر وچہ بیٹھی دل پرچاواں کر کر یاد تیریاں ی اداں نوں<br />
باباجی<br />
کے ہاں عوامی مح<strong>اور</strong>ہ <strong>اور</strong> امثال کا بڑی<br />
سے استعمال میں آئے ہیں۔ مثال<br />
گھت کٹھالی گال یا<br />
کھوتا کھوہ چا پایا ا ی<br />
پکاراں کر کر تھک ی<br />
تیر کلیجے ال یا<br />
خوبی<br />
معروف ہے تکیف <strong>اور</strong> دکھ چپ وٹنا درست نہیں۔<br />
کوٹھے پر چڑھ کر اعالن کرو۔ بابا جی کے ہاں<br />
استعمال مالحظہ ہو ۔<br />
کوٹھے چڑھ کھلوواں<br />
بہرطور شخصی احساس <strong>اور</strong> باطنی کیفیات کو بڑے<br />
موثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اب باباجی کا کالم
مالحظہ ہو۔ یہ تحریر میں کب آیا <strong>کچھ</strong> کہ نہیں سکتا۔<br />
ہاں اس رجسٹر پر یا میں نقل کیا گیا۔<br />
اس حساب سے بھی چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو<br />
گیا۔ ناقل نے کہیں ناکہیں ٹھوکر کھائی ہو گی۔ پڑھا<br />
نہیں جا رہا لہذا محفوظ میں بھی نہیں رہا ہوں گا ۔<br />
1915<br />
1914<br />
آشا پربھات'<br />
مسکاتے' سلگتے <strong>اور</strong> بلکتے احساسات<br />
کی شاعر<br />
عزیزہ آشا پربھات نے اپنا مجموعہءکالم۔۔۔۔۔<br />
مرموز۔۔۔۔۔۔ ان الفاظ کے ساتھ عطا ک یا۔<br />
صف اول کے فعال ادیب' نقاد <strong>اور</strong> دانشور محترم بھائی<br />
صاحب کو احترام کے ساتھ<br />
آشا پربھات<br />
اگست 8 1992<br />
میں نے <strong>کچھ</strong> لکھا بھی تھا <strong>اور</strong> وہ کہیں شائع بھی ہوا<br />
تھا۔ باوجود کوشش کے' وہ لکھا دستیاب نہیں ہو پا<br />
رہا۔ کالم آج انیس سال بعد' دوبارہ پڑھنے میں آیا ہے'<br />
میں بڑی سنجیدگی <strong>اور</strong> دیانت داری سے' محسوس کر
رہا ہوں'<br />
اس پر لکھا جانا چاہ یے۔<br />
2<br />
مرموز 1992<br />
میں' پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز جے<br />
کرشن نگر دلی سے' شائع ہوا۔ ٹائیٹل بیک پر' آشا<br />
پربھات کی تصویر تعارف <strong>اور</strong> ان کے کالم پر اظہار<br />
خیال بھی' کیا گیا ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط میں'<br />
لکھنے والے کے متلعلق بتایا ہو گا۔ اب اس خط کا<br />
ملنا' آسان نہیں۔ اس تحریر کے مطابق' آشا پربھات کی<br />
والدت رکسول' بہار میں ہوئی۔ ان کا ناول۔۔۔۔۔ دھند میں<br />
اگا پیڑ۔۔۔۔۔ ماہ نامہ منشور کراچی میں شائع ہوا' جو<br />
بعد میں' کتابی شکل میں بھی شائع ہوا تھا۔ انہوں نے'<br />
مہربانی فرماتے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ناچیز فانی کو<br />
بھی' عنایت کیا تھا۔ ان کا ایک مجموعہء شعر ۔۔۔۔۔۔<br />
<strong>دریچے</strong>۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زبان کے' دیوناگری خط میں بھی<br />
شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک ہائیکو پر مشتمل<br />
مجموعہ۔۔۔۔۔گرداب۔۔۔۔۔۔ زیر اشاعت تھا ۔<br />
ان کی شاعری سے متعلق کہا گیا ہے ۔<br />
اسلوب <strong>اور</strong> ہیئت کے اعتبار سے ان کی نظمیں شعری<br />
<strong>ادب</strong> کے سرمائے میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی<br />
ہیں۔
اس مجموعے میں' کل اکسٹھ شعر پارے شامل ہیں'<br />
جن میں سولہ غزلیں <strong>اور</strong> پانچ اوپر چالیس نظمیں<br />
شامل ہیں۔ آشا بنیادی <strong>اور</strong> پیدائشی طور پر' دیوناگری<br />
رسم الخط سے متعلق ہیں' لیکن اردو رسم الخط سے'<br />
ان کی محبت عشق کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا<br />
ہے ۔<br />
اردو میری محبوب ہے <strong>اور</strong> میری محبوب کی آنکھوں<br />
میندھنک کے تمام رنگ لہراتے ہ یں۔<br />
ان کا کہنا' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی<br />
عملی صورت میں موجود ہے۔ واقعی اردو سے وہ<br />
عشق کرتی ہیں۔<br />
اس کاوش فکر کا ابتدائیہ' جو آشا پربھات کا لکھا ہوا<br />
ہے' سچی بات ہے' دل کے نہاں گوشوں میں بھی'<br />
ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ مالحظہ فرمائ یں۔<br />
اس کاوش فکر کا ابتدائیہ جو آشا پربھات کا لکھا ہوا<br />
ہے سچی بات ہے دل کے نہاں میں بھی ارتعاش پیدا<br />
کرتا ہے۔ مالحظہ فرمائ یں۔
مجھے نہیں معلوم شاعری کیا ہے۔ شعری آہنگ کیا<br />
ہوتا ہے۔ شعری شعور کیا ہے <strong>اور</strong> داخلی عوامل سے<br />
یہ کس طرح ترتیب پاتا ہے۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ<br />
دھند صرف پہاڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر بھی<br />
پھی یلت ہے۔ سمندر لہراتا ہے۔ دریا موجزن ہوتا ہے۔<br />
طوفان اٹھتے ہیں' پھول کھلتے ہیں' خوشبو پھی یلت<br />
ہے <strong>اور</strong> جب بھی میں ان کیفیتوں سے گزرتی ہوں تو<br />
لفظوں کا سہارا لیتی ہوں <strong>اور</strong> محسوسات کے پراسرار<br />
دھندلکوں میں الفاظ کی قندیل جالتی ہوں لیکن الفاظ<br />
دور تک میرا ساتھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
میرے نزدیک شاعری قندیل جالنے کا عمل ہے۔<br />
مجھے نہیں معلوم میری قندیل کی روشنی محسوسات<br />
کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن کیا یہ کم ہے کہ<br />
میں نے قندیل جالئی ہے <strong>اور</strong> جالئے رکھنے کا عزم<br />
رکھتی ہوں ۔<br />
یہ زبانی کالمی کی باتیں نہیں' مرموز کے مطالعے<br />
کے بعد' یہ تمام کیفیات پڑھنے کو ملتی ہیں۔<br />
لفظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہ یں
یلت<br />
دل کے نہاں خانوں م یں<br />
تم موجود ہو<br />
آکاش میں شبد کی طرح<br />
نظم آکاش میں شبد ص<br />
9<br />
دھند آدمی<br />
کے اندر بھی<br />
ہے ۔ پھی<br />
اب کسی بھی آنکھ م یں<br />
پہچان کی خوشبو نہ یں<br />
چوباروں کے دی ئے<br />
کب کے بجھ چکے ہ یں<br />
بہت جان لی وا سناٹا<br />
وہاں لی ٹا رہتا ہے<br />
نظم گاؤں کا المیہ ص<br />
11<br />
اس ضمن میں ایک <strong>اور</strong> مثال مالحظہ ہو ۔<br />
ہر سو<br />
دھند کا پہرہ ہے<br />
رات خاموش ہے<br />
مٹ ملی چاندن ی<br />
اتر آئی ہے میرے آنگن م یں
میری نظم۔<br />
اداس آنکھیں ص 11<br />
جذب و احسات کا اٹھتا طوفان <strong>اور</strong> ردعملی<br />
مالحظہ ہو<br />
روک لو<br />
ان وحشی درندوں کو<br />
ان کی کنٹھاؤں کے<br />
تی ز ناخونوں کو توڑ ڈالو<br />
یہ نہی ں جانتے<br />
بارود کی ڈھیر پر بی ٹھ کر<br />
خود ماچس جالنے کا انجام<br />
یہ نہی ں جانتے<br />
جھلستے ہوئے انسانوں کے المی ہ کو<br />
۔ جنگ ص<br />
پکار<br />
نظم 11<br />
موجزن دریا <strong>اور</strong> لہراتے سمندر کی<br />
کیفی ت مالحظہ ہو<br />
تمہاری چھوی ابھرتی ہے<br />
ایک روش ہالہ کی طرح<br />
<strong>اور</strong> ایک شکتی بن کر<br />
میری روح میں سما جاتی ہے
میں جی اٹھتی ہوں<br />
امبربیل کی طرح<br />
پلکیں جھپک اٹھتی ہیں<br />
توانائی کا بےکراں سمندر<br />
لہرا اٹھتا ہے میرے انگ انگ م یں<br />
نظم تنہائی ص<br />
12<br />
احساس کی<br />
کہانی<br />
مالحظہ ہو<br />
می رے اندر<br />
کہیں چپ سی پڑی ہے<br />
ایک ننھی چڑ یا<br />
وہ اب نہیں پھدکت ی<br />
نہیں چہکت ی<br />
نہ ہی بارش میں<br />
اپنے پر بھگوتی ہے<br />
نظم ننھی چڑیا ص<br />
14<br />
لفظوں کی<br />
مسکان <strong>اور</strong> خوش بو مالحظہ ہو ۔<br />
آبگینے سے زیادہ نازک لمحوں کے بیان کے لیے
لفظوں کا انتخاب آشا کو خوب خوب آتا ہے۔<br />
الئینیں مالحظہ ہوں ۔<br />
تمہاری آواز کی نم ی<br />
ہمیشہ کی طرح<br />
اس بار بھی گمراہ کر گئ ی<br />
میں اس موڑ پر ہوں<br />
جہاں سے واپس مڑ گئی تھ ی<br />
نظم تمہاری آواز کی نمی ص<br />
یہ ذرا<br />
91<br />
آشا محاکات کی<br />
تشکیل میں کمال رکھتی<br />
مثال ہیں۔<br />
حسب معمول<br />
اس بار بھی تم<br />
می رے چہرے کا<br />
اپنے ہاتھوں سے<br />
کٹورا سا بناؤ گے<br />
می رے لب چومو گے<br />
<strong>اور</strong> بھر دو گے می رے آنچل کو<br />
عہد و پی ماں کے جگنوؤں سے<br />
نظم میرے لب سلے ہیں ص<br />
91
آشا کے ہاں' تشبیہات کا بالکل نئے طور <strong>اور</strong> نئی زبان<br />
کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ چند ایک مثالیں مالحظہ<br />
ہوں<br />
دل کے نہاں خانوں م یں<br />
تم موجود ہو<br />
آکاش میں شبد کی طرح<br />
نظم آکاش میں شبد<br />
9<br />
تمہارے سارے خی االت<br />
نیم خوابیدہ ہنسی کی طرح<br />
میرے ہونٹوں پر پھیل جائیں گ ے<br />
15 تنہائی ص<br />
شوخ لہر یں<br />
سرکشی کرتی ہی ں کناروں سے<br />
سانپ کے کینچل کی طرح<br />
نظم تمہارے جانے کے بعد ص<br />
11<br />
تمہاری<br />
نرم انگلیوں کا<br />
جی سے<br />
لمس مخملی
بند شیشوں سے باہر گرت ی<br />
مسلسل برف باری کا سلسلہ<br />
نظم ایک احساس ص<br />
<strong>اور</strong> سکھ<br />
معصوم بچے سا<br />
کونے می ں دبک کر<br />
سو گی ا ہے<br />
نظم ریت کی ندی<br />
15<br />
55<br />
تلمیح کا استعمال <strong>اور</strong> استعمال کی زبان' مالحظہ ہو ۔<br />
ریت کی ندی بہتی ہے ۔۔۔۔۔<br />
گرم ریت میں پھنس گیا ہے کہ یں<br />
سوہنی کا گھڑا<br />
نظم ریت کی ندی ص<br />
55<br />
اٹھو<br />
ہاتھ بڑھاؤ<br />
<strong>اور</strong><br />
صلیب پر ٹنگے نصی ب کو اتار لو<br />
صلیب پر ٹنگے نصیب ص<br />
نظم 29
یشن<br />
مندر کی روشنی میں<br />
مسجد کی رو میں<br />
کی وں کہرا بڑھ رہا ہے<br />
کی وں کہرا چھا رہا ہے<br />
نظم سانپ کو پکڑ لو ص<br />
21<br />
بہت دن ہوئے<br />
جب یوکلپٹس کے پیڑوں کی طرح<br />
دن اگتا تھا<br />
نظم بہت دن ہوئے ص 11<br />
سماج کی عمومی چیزیں بھی' استعمال میں التی ہیں<br />
<strong>اور</strong> یہ ہی' اس کی نظم کے لسانی حسن کا سبب بنتی<br />
ہیں۔<br />
آٹا گوندھنے کے درمی ان<br />
نظم تمہاری یاد ص<br />
91<br />
........<br />
کھڑکیوں <strong>اور</strong> دروازوں کے مخملی<br />
پردے<br />
........
یگل<br />
ہانڈیوں می ں دانے<br />
اکیسویں صدی ص11-<br />
نظم 19<br />
.......<br />
ڈنڈے <strong>اور</strong><br />
بچوں کے ہجوم<br />
وقت پیرہن بدلتا ہے ص91-<br />
نظم 91<br />
.......<br />
چوپالوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی<br />
نظم گاؤں کا المیہ ص<br />
19<br />
راکھ<br />
آشا نے زبان کو مختلف نوعیت و حیثیت کے مرکب<br />
فراہم کیے ہیں۔ یہ اردو کی لسانی و فکری ثروت کا<br />
سبب بنے ہیں۔ مثال<br />
کرب گل ص<br />
نیم خوابیدہ ہنسی ص<br />
خرگوشی لمس ص<br />
مٹ ملی چاندنی ص<br />
من کا سناٹا ص<br />
لفظوں کا پل ص<br />
سکھ کا چل ص<br />
دہشت کے سائے ص<br />
54<br />
14<br />
11<br />
11<br />
55<br />
21<br />
55<br />
42
تلوار کے قلم ص<br />
موت کی دستک ص<br />
کہرے کی دیوار ص<br />
جھینگر کی جھنکار ص<br />
ریت کی ندی ص<br />
خیالوں میں اڑان ص<br />
21<br />
41<br />
41<br />
15<br />
55<br />
22<br />
آشا کی<br />
زبان کا مہ<strong>اور</strong>ہ بھی فصیح وبلیغ ہے۔ مثال<br />
وقت پی رہن بدلتا ہے<br />
زخم بھر جاتےہیں ص<br />
41<br />
55<br />
آکاش نے<br />
اپنا پریچے کھو دی ا ہے<br />
وقت موک بنا<br />
ٹھگا سا دیکھتا رہ گیا ہے ص<br />
جو جتنا ماہر ہے<br />
اتنا بھوگتا ہے اسٹیج کا سکھ ص<br />
<strong>اور</strong> سپنے<br />
نی م وا آنکھوں سے<br />
52
چھلک پڑے ص51- 59<br />
کوئی احساس<br />
کوئی درد تمہارےپیروں ک ی<br />
بیڑی نہیں بن سکا ص<br />
95<br />
میرے اندر چپ سی پڑی ص<br />
خیالوں میں اڈان بھرو گے ص<br />
میرا پچھتاوا مکھر ہو اٹھا ہے ص<br />
14<br />
22<br />
52<br />
آشا کے ہاں' زبان <strong>اور</strong> زبان کا لب و لہجہ <strong>اور</strong> ذائقہ<br />
الگ پڑھنے کو ملتا ہے۔ غیر محسوس <strong>اور</strong> رونی میں'<br />
عالمتوں <strong>اور</strong> استعاروں کا' استعمال متاثر کرتا ہے۔<br />
مثال<br />
توانائی کا بےکراں سمندر ص<br />
درد چلتا ہے دبے پاؤں ص<br />
ماں کی چھاتیوں کا سمندر ص<br />
لفظوں کا پل ٹوٹ گیا ص<br />
کہر کی دیواروں کے بچ ص<br />
12<br />
19<br />
19<br />
21<br />
41<br />
اس خاموشی<br />
کے شکنجہ م یں
فقط جان بہ لب تھا میرا ایمان ص 55<br />
آشا کے ہاں' اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو<br />
ملتی ہیں' ساتھ میں' اس عہد کے شخص کے لیے<br />
.پیغام بھی ہے۔ باطور مثال ی ہ نظم مالحظہ ہو<br />
صلیب پر ٹنگے نص یب<br />
اٹھو<br />
ہاتھ بڑھاؤ<br />
<strong>اور</strong><br />
صلیب پر ٹنگے نصی ب کو اتار لو<br />
وہ بھی مضبوط ارادوں ک ی<br />
راہ دی کھتا ہے<br />
زندگی کو دان ک ی<br />
پیٹی مت دو<br />
کسی آدھے ادھورے<br />
مندر کی بنیاد پر رکھ ی<br />
دان کی پیٹی<br />
جس م یں<br />
مجبوری ی ا ڈر سے
ڈال جاتا ہے کوئ ی<br />
پانچ پیسے دس پی سے<br />
غرض آشا پربھات کی شاعری' اپنے وجود میں' فکری<br />
<strong>اور</strong> لسانی اعتبار سے' قابل توجہ توانائی رکھتی ہے<br />
<strong>اور</strong> اسے نظر انداز کرنا' مبنی برانصاف نہ ہو گا۔<br />
غژل چوں کہ نظم سے' قطعی الگ صنف سخن ہے'<br />
اسی لیے اسے' کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا<br />
ہے ۔